نظیر احسان
گلگت بلتستان کی باہمت خاتون سلطانہ نصیب کی کہانی خواتین کے عزم، حوصلے، اور بے پناہ طاقت کی ایک شاندار مثال ہے ۔ وہ نہ صرف پاکستان کی تیسری خاتون ہیں جنہوں نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی، کے ٹو، کو سر کیا بلکہ اپنی اس کامیابی کے دوران پانچ ماہ کی حاملہ بھی تھیں، جس نے ان کے کارنامے کو اور بھی منفرد بنا دیا۔
سلطانہ نے 28 جولائی 2024 کو کے ٹو کی چوٹی کو سر کرتے ہوئے تاریخ رقم کی۔ ان کی اس فتح کے چار ماہ بعد 25 نومبر 2024 کو انہوں نے ایک بچی کو جنم دیا۔ یہ کارنامہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ دنیا بھر کی خواتین کے لیے ایک تحریک بن گیا، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو پہاڑی علاقوں میں زندگی کی سختیوں کا سامنا کرتی ہیں۔
سلطانہ کا کہنا ہے: "میں اپنی ماں سمیت دیگر خواتین کو دیکھ کر بڑی ہوئی ہوں، جو مشکل حالات میں بھی سخت محنت کرتی تھیں۔ میری کامیابی خطرات مول لینے کے بجائے یہ دکھانے کے لیے تھی کہ خواتین اپنی قابلیت اور تیاری کے ذریعے ہر چیلنج کو شکست دے سکتی ہیں۔”
ہنزہ گوجال کی وادئ شمشال جو ‘کوہ پیماوں کی وادی’ کہلاتی ہے، میں پرورش پانے والی سلطانہ نصیب کے لیے محنت اور خود پر یقین ہمیشہ سے زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ خواتین نہ صرف اپنی طبعی و سماجی قیود و حدود کو توڑ سکتی ہیں بلکہ دیگر لوگوں کے لیے بھی ایک مثال بن سکتی ہیں۔
سرباز خان کی قیادت میں، سلطانہ اپنی چھ خواتین کی ٹیم کی واحد رکن تھیں جنہوں نے کامیابی کے ساتھ کے ٹو کو سر کیا۔
سلطانہ کی کامیابیوں کے باوجود انہیں وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کی وہ حقدار تھی۔ اپنی زندگی اور صحت کو داؤ پر لگا کر ملک کا نام روشن کرنے کے بعد بھی، انہیں کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی مدد حاصل نہیں ہو سکی۔ آج وہ اپنے بچے کے ساتھ سخت زندگی گزار رہی ہیں، جو ان لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ حقیقی ہیروز کی قدر کرنی چاہیے۔
سلطانہ نصیب کی کہانی صرف ایک پہاڑ سر کرنے کی کہانی نہیں بلکہ یہ خواتین کے لیے طاقت اور حوصلے کی مشعل راہ ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین کسی بھی میدان میں، کسی بھی حالت میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں اگر انہیں مواقع، مالی مدد فراہم کی جائے۔
ان کی کامیابی نہ صرف ان کی اپنی بلکہ تمام خواتین کے لیے ایک پیغام ہے کہ خواب دیکھیں، محنت کریں اور اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھیں۔ سلطانہ نصیب کی کہانی کو نہ صرف پذیرائی کی ضرورت ہے بلکہ ان کی حمایت کے لیے ٹھوس اقدامات بھی ہونے چاہئیں تاکہ ان جیسی خواتین مزید چیلنجزقبول کر سکیں اور دنیا کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔