این جی اوز درحقیقت ایک بے نتیجہ راستہ اختیار کرتی ہیں. ان کا اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ سیاسی اشتعال کم کرتی ہیں اور جو چیزیں عوام کو اُن کے استحقاق کے طور پر میسر آنی چاہئیں, وہ انھیں امداد یا خیرات کے طور پر مہیا کی جاتی ہیں. این جی اوز عوامی نفسیات بدل ڈالتی ہیں وہ عوام کو انحصاریت کا شکار اور سیاسی مزاحمت کی دھار کو کُند کردیتی ہیں.یہ سرکار اور عوام یا ریاست اور رعایا کے درمیان بفر کا کام دیتی ہیں. وہ ہر دو فریقین کے موقف کی تشریح کرتی ہیں اور دونوں کے درمیان بات چیت یا مزاکرات کو سہل بناتی ہیں, وہ ایک ناجائز, غیرمنصفانہ اور غیر معقول جنگ کے دوران ایک "معقول شخص” کا کردار ادا کرتی ہے.
آخری مرحلے میں این جی اوز اُن افراد یا اداروں کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں جو انھیں فنڈز مہیا کرتے ہیں.البتہ عوام, جن کے درمیان وہ کام کرتی ہیں, وہ انھیں جوابدہ نہیں ہوتی,علمِ نباتات کے ماہرین کی زبان میں اسے نشان دہی کرنے والی یا” نمائندہ نوع” کہا جاسکتا یے.
ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوآزاد خیالی جتنی زیادہ تباہی نازل کرے گی,این جی اوز اسی تناسب سے پیدا ہوتی چلی جائیں گی.اس کی وضاحت کے لیے اس سے بہتر کوئی مثال دستیاب نہیں کہ ایک طرف امریکہ کسی ملک پر حملہ کرے اور اسی وقت کسی این جی اوز کو رختِ سفر باندھنے کا حکم دے دے کہ جاؤ اور میرے حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی اور بربادی کے آثار کا یکسر صفایا کردو.
یہ تصادم کو مذاکرات میں بدل ڈالتاہے ،
مزاحمت میں سے سیاست کو نکال دیتا ہے.۔۔
یہ مقامی عوام کی ان تحریکوں میں مداخلت کرتا ہے. جو روایتی طورپر اپنے وسائل پر انحصار کرتی ہیں. این جی اوز کے پاس فنڈز ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ اُن مقامی لوگوں کو اپنے ہاں ملازمت دے دیتی ہیں جن کے متعلق خیال ہو کہ دوسری صورت میں کسی مزاحمتی تحریک میں شامل ہو کر فعال کردار ادا کریں گے وہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ فوری نوعیت کا کوئی اچھا اور تخلیقی کام کررہے ہیں ( اور اس دوران وہ اپنی روزی بھی کمارہے ہوتے ہیں )خیرات دینے والوں اور لینے والوں کو بھی تسکین ملتی ہے.لیکن اس کے اضافی اثرات خطرناک ہوسکتے ہیں. حقیقی سیاسی مزاحمت ایسا ” شارٹ کٹ” پیش نہیں کرتی