183

گلگت بلتستان کیلئے انتظامی اصلاحات کی تاریخ

شیر علی انجم


گلگت بلتستان میں پہلی بار1961میں بنیادی سیاسی نظام کی بنیاد رکھ کر انتخابات کروائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو و ملک کے وزیرِاعظم بنے تو انہوں نے خطے میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات لاتے ہوئے گلگت اور بلتستان کو الگ اضلاع کا درجہ دیا اور ایف سی آر کا خاتمہ کر کے لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا۔ دوسری طرف اُنہوں نے گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے باوجود خطے میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو ترقی کے خلاف قانون قرار دیکر مساجد سے اس قانون کی خلاف ورزی کو جائز قرار دینے کا فتوی جاری کرایا۔ یوں بھٹو ہی کے دور میں گلگت بلتستان میں قانون باشندہ کی خلاف ورزیاں شروع ہوئی جو آج سنگین شکل اختیار کر چُکی ہے۔ اسی طرح 1972 اور 1974 کے دوران بھٹو نے خطے کے تمام اضلاع کا دورہ کیا اور عوامی مطالبات پر دیا میر،غذر اور گانچھے ضلع کا قیام عمل میں لایا اور کئی مقامی سیاسی جماعتوں کو ختم کرکے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔1977میں جب ضیاء الحق نے پاکستان میں مارشل لاء لگایا تو گلگت بلتستان مارشل لاء کا پانچواں زون قرار دے کر یہاں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ حالانکہ گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر کی قانونی حیثیت ایک ہونے کے باوجود آزاد کشمیر اس کالے قانون سے مبرا رہے ۔
اسی طرح1979میں پہلی مرتبہ شمالی علاقہ جات ایڈوائزری کونسل تشکیل دیکرخطے میں ناردرن ایریاز لوکل گورنمنٹ آرڈر نافذ کیا ۔سیاسی ارتقاء کے اس عمل کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے1984میں خطے سے تین افراد کو پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ میں مبصر نامزد کیے گئے۔ اسی طرح1991میں پہلی بار ناردرن ایریاز کونسل میں خواتین کے لیے دو نشستیں مختص کیے جانے کےبعد ارکان کی تعداد سولہ سے بڑھ کراٹھارہ ہوگئی۔1994میں شہید بے نظیر بھٹو نے ایک پیکج دیا جس کے تحت پہلی مرتبہ ناردرن ایریاز کونسل کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے اور ارکان کونسل کی تعداد کو16 سے بڑھا کر 26کر دیا گیا جس کے تحت غذر اور گانچھے کے اضلاع کو تین تین جب کہ دیگر تین اضلاع سکردو، گلگت، دیامیر، کو چھ چھ سیٹیں دی گئیں۔ گلگت بلتستان کے وفاقی وزیر کو چیف ایگزیکٹو بنایا گیا اور ناردرن ایریاز کونسل سے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اور پانچ مشیر منتخب کیے گئے۔ عدالتی اصلاحات میں ایک چیف کورٹ کا اضافہ کیا گیا جو ایک چیئرمین اور دو ممبران پر مشتمل تھی۔ اسی طرح ایک اور پیکج کارگل جنگ کے دوران28مئی1999کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دیا گیا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم جاری کیا کہ وہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو بنیادی حقوق فوراً فراہم کرے اور حکومت کا اختیار وہاں کے منتخب نمائندوں کے سپرد کیا جائے اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے آزاد عدلیہ قائم کی جائے۔
وفاقی حکومت نے اکتوبر1999کو سیاسی، عدالتی اصلاحاتی پیکج کا اعلان کیا۔ جس کے مطابق ناردرن ایریاز کونسل کو قانون ساز کونسل کا درجہ دے دیا گیا۔ کونسل کو49شعبوں میں قانون سازی کا اختیار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک اپیلٹ کورٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ جب کہ کونسل میں خواتین نشستوں کو2سے بڑھا کر5 کر دیا گیا۔ تیسرا سیاسی اصلاحاتی پیکج جنرل مشرف کے دور میں مرحلہ وار آیا۔ جس میں پہلے پانچ سال کے دوران1999سے2004تک ترقیاتی فنڈ کو86کروڑ سے بڑھا کر ساڑھے چار ارب کردیا گیا۔ جب کہ اکتوبر2003میں کونسل کے لیے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دیا گیا۔2004میں لیگ فریم ورک آرڈر میں ترمیم کے ذریعے قانون ساز کونسل میں سے6خواتین اور پہلی مرتبہ6ٹیکنوکریٹ کی نشستیں دی گئیں جس سے ارکان کونسل کی تعداد 24 سے بڑھ کر 33 ہوگئی اور ضلع دیامیر کے سب ڈویژن استور کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی جعرافیائی اہمیت کے پیش نظر2007میں 32 سال بعد ورک آرڈر ختم کرکے ناردرن ایریاز گورننس آرڈر نافذ کیا گیا۔ جس کے تحت قانون ساز کونسل کو اسمبلی کا درجہ دیا گیا۔ سپریم اپیلٹ کورٹ قائم کیا گیا اور وفاقی وزیر کو چیئر مین اور ڈپٹی چیف کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دیا گیا۔
چوتھی بار ستمبر2009میں گلگت بلتستان (ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈرجاری کیا جس کے تحت گلگت بلتستان کو چاروں صوبوں ملک کا پانچواں بے اختیار وزیر اعلیٰ اور گورنر نصیب ہونے کے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات کا نام پہلی بار تبدیل کرکے گلگت بلتستان کے نام سے اس خطے کو شناخت ملی جو کہ اس خطے کی عوام کا دیرنیہ مطالبہ تھا۔ اسی طرح اس پیکج میں سیاسی خودمختاری کا نعرہ لگایا لیکن عملی طور پر آج بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے اہم فیصلے ایک غیر منتخب ،غیر مقامی وفاقی وزیر اور بیوروکریسی کرتے ہیں۔اس پیکج میں گلگت بلتستان کیلئے گورنر اور وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوئے اور وزیر اعلیٰ کی معاونت وزیر اعلیٰ کو دو مشیر اور پارلیمانی سیکریٹری مقرر کرنے کا اختیار بھی دیا گیا۔ گورنر کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کی مشاورت سے صدر پاکستان کرتے ہیں جبکہ منتخب اسمبلی کو وزیر اعلی منتخب کرنے کا اختیار دیا ۔قانون ساز اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد38ہوگی۔ جس میں سے24براہ راست منتخب ہوں گے جب کہ سات سات نشستیں، خواتین اور ٹیکنو کریٹس کی ہوں گی جس میں ہر ضلع کی نمائندگی شرط ہے اور جن امور پر قانون ساز اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے۔ ان کی تعداد49سے بڑھا کر61کر دی ہے۔کشمیر کونسل کی طرز پر گلگت بلتستان کونسل(جو ایک طرف سے سیاسی کاروباربن چُکی ہے) قائم کیا گیا جس کے چیئرمین وزیر اعظم پاکستان گورنر اس کے وائس چیئرمین ہیں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو بھی اس کے ممبر ہونے کا اختیار دیا۔ آج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت خطے کو عبوری صوبہ بنانے کی تیاری کر رہا ہے اس حوالے سے خطے میں حمایت اور مخالفت کرنے والوں کو زبردست تاکڑا چل رہاہے۔
سلامتی کونسل کے قرارداد کی بنیاد پر گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت۔
چند ماہ قبل گلگت بلتستان کی اسمبلی نے اقوام متحدہ کی جن قراردادوں کا حوالہ دے کر قرارداد پاس کرکے عبوری صوبے کا مطالبہ کیا ہے , اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر پر پاس کی گئی انہی قراردادوں میں سے ایک اہم قرارداد جو کہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 122 کہلاتی ہے , جس میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ ان اسمبلیوں کے پاس ایسا اختیار ہی موجود نہیں ہے جس کے تحت وہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ گلگت بلتستان اسمبلی کی قراداد کی مسئلہ کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردووں کی روشنی میں کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ قرارداد دراصل سلامتی کونسل کی قراددوں اور ریاست پاکستان کے قومی بیانئے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے قرارداد 13 اگست 1948 میں اس بات کا حکم دیا تھا کہ پاکستان گلگت اور مظفر آباد میں لوکل اتھارٹی گورنمنٹ قائم کرکے چھے مہینے کے اندر رائے شماری کو یقینی بنائیں ۔لیکن گلگت بلتستان کے حوالے سے ایسا نہیں ہوا اور گلگت بلتستان کا انتظام سنبھالنے کیلئے معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے ایک شق کا سہارا لینا پڑا ۔
دستور پاکستان کے آرٹیکل257 کیا کہتی ہے؟۔
سلامتی کونسل کے قراردادوں کی بنیاد پر مُلک کے آئین میں ایک آرٹیکل 257 کے نام سے شامل ہےجس کے مطابق جب ریاست جموں اور کشمیر(گلگت بلتستان،لداخ،آزاد کشمیر۔جموں اور وادی کشمیر ) کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں گے تو پھر پاکستان اور ریاست کے مابین تعلقات کا فیصلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی کوئی گنجائش موجود نہیں، اگر کسی کومسئلہ کشمیر کے کسی غیر روایتی حل کی تلاش ہے تو اسے سب سے پہلے پاکستان کے آئین کی دفعہ257 کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اور آئین میں ترمیم کرکے یہ لکھ کر اقوام متحدہ کو بتانا ہوگا کہ ہم گلگت بلتستان کو عبوری طور پر اپنے مُلک میں ضم کرنے جارہے ہیں جس کیلئے آرٹیکل 257 میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو الگ حیثیت دی جائے گی۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں پاکستانی کو سفارتی سطح پر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا دوسری طرف آئین پاکستان سے غداری ہوگی۔ یہی بات گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے ایک غیر مُلکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی دہرایا۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور بزرگ سیاست دان سراح الحق نے بھی گزشتہ ہفتے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہے اور ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 257 موجود ہے اس آرٹیکل سے ہٹ کر گلگت بلتستان کیلئے اقدامات آئین سے غداری ہوگی۔ اگر ہم سلامتی کونسل کے قرارادوں کا مزید ذکر کریں تو کئی قرار داد ایسے ہیں جس میں کمیشن کو باقاعدہ ہدایت جاری کی گئی ہے۔ اُن میں سے ایک قرارداد جو21 اپریل 1948 کو منظور کی گئی، میں کمیشن کو ہدایات دی گئیں، کہ وہ خطے میں جا کر دونوں ممالک کے درمیان امن بحال کرائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے منعقد کرانے کے انتظامات کریں۔ آگے چل کر14 مارچ 1950 کی قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو اپنی فوجیں کنٹرول لائن تک پیچھے ہٹانے کے لیے کہا گیا۔ شمالی علاقہ جات (گلگت لداخ)کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام کیا گیا اور استصواب رائے کے انعقاد کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے نمائندہ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔10 نومبر 1951 کی قرار داد میں اقوام متحدہ کے نمائندے فرینگ گراہم کی رپورٹ پیش کی گئی اور انہوں نے سلامتی کونسل میں خطاب میں کہا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلانے، تنازع کشمیر کو باہمی رضا مندی سے حل کرنے اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی میں استصواب رائے کے قیام پر رضا مند ہوگئے ہیں۔24 جنوری 1957 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں کہا گیا کہ آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی قانون ساز اسمبلی متنازع جموں و کشمیر کے مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 91 کے مطابق جموں و کشمیر علاقہ متنازع ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کی روشنی میں۔
پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کے کچھ کاروباری افراد نے ٹیکسوں کے نفاذ کو بنیاد بنا کر سال1994ء میں ایک آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا(جو الجہاد ٹرسٹ فیصلہ کے نام سے مشہور ہے) اس آئینی پٹیشن پہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں ایک لارجر بنچ نے سال 1999ء میں فیصلہ دیکر حکو مت پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے اوپر خود حکومت کرنے کا اختیار دیں اور یہاں کے عوام کے بنیادی حقوق کی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے آئینی گارنٹی کے ساتھ ایک آزاد خودمختار عدلیہ قائم کیا جائے سپریم کورٹ نے وفاق پاکستان کو چھ ماہ کے اندر اس فیصلے پہ عمل درآمد کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح سال 2015ء میں جی بی کے وکلاء تنظیموں نے گورننس آرڈر 2009ء کو 1999 کے فیصلے کی بنیاد پہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اس آئینی پٹیشن پہ فیصلہ آنے سے پہلے حکومت پاکستان نے آرڈر 2009 کو منسوخ کرکے جون 2018 میں نیا آرڈر 2018ء نافذ کیا۔ 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر واضح طور پر لکھا ہے کہ گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی اورگلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے کی جائے گی۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 258 کیا ہے؟
آرٹیکل 258 صوبوں سے باہر کے علاقہ جات کے نظم و نسق سے متعلق ہے۔یعنی وہ علاقے جو پاکستان کا حصہ تو ہیں لیکن کسی صوبے کے ساتھ نہیں۔گلگت بلتستان اسی آرٹیکل کے ساتھ پاکستان میں شامل ہے اور گورننس آرڈر اسی آرٹیکل کے تحت یہاں نافذ ہے۔ دوسری طرف گلگت بلتستان کو اگر اسی آرٹیکل کی بنیاد پر دیکھیں کو پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے ۔ایسے میں آرٹیکل 258 میں ترمیم سے گلگت بلتستان کی پوزیشن کیسے تبدیل ہوسکتا۔ ایسا کرنا بھی آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس حوالے سے قانون کے ماہرین بہتر رائے دے سکتا ہے ۔
ان تمام تاریخی اور قانونی حقائق کی روشنی میں گلگت بلتستان کیلئے صوبے کا مطالبہ کرنے والے دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور اصلاحاتی پیکجز کو صوبے کا نام دیتے ہیں کچھ ایسا اس وقت بھی ہورہا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کے تمام آئینی اداروں میں نمائندگی ملے گی ،این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کے حساب سے حصہ ملے گا۔ اس قسم کے باتوں کو سمجھنے کیلئے آرٹیکل ون، آرٹیکل 257، آرٹیکل 258 اور سلامتی کونسل کے قراردادں کو پڑھنا لازمی ہے تاکہ خواہشات کی دنیا سے نکل کرحقیقت کی دنیا میں قدم رکھ کر معاملے کو سمجھ سکے۔ گلگت بلتستان کو اگر واقعی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے حقوق دینا ہے جو اس مسلے کو مزید گھمبیر بنانے کے بجائے لوکل اتھارٹی گورنمنٹ(آئین ساز اسمبلی کی شکل میں) یقینی بنائیں ، گلگت بلتستان کے عوام میںخلاصہ زمینوں کو سرکاری زمین قرار دیکر کے جس طرح بغیر کسی معاوضے کے قبضہ ہورہا ہے اس حوالے سے عوام میں شدید شکوک شہبات اور خدشات پایا جاتا ہے اس سلسلے کو روکیں، اس خطے کے قدرتی وسائل پر خطے کو رائلٹی دینے کیلئے میکنزم بنائیں ، اس خطے سےہائیڈور بجلی پیدا کرکے پاکستان کے چاروں صوبوں کو لوڈشیڈینگ سے جان چھڑائیں، جدید دور کے مطابق تعلیم دارے بنائیں ، ساحت کی ترقی کیلئے روڈ نیٹ بنانے کے ساتھ انٹرنیٹ کی سہولت کو یقینی بنائیں یہی حقوق ہے۔ اس سے پاکستان بھی ترقی کرے گا اور گلگت بلتستان بھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں