فرنود عالم بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
قبلہ ہارون رشید کی آنکھ کو جو شخص بھا جائے، سمجھ جائیں اس کے پاس گنتی کے تین ہی جوڑے ہیں۔ یہ جوڑے جس کے پاس ہوں اُس کے لیے کامیابی اور بخشش کا وعدہ ہے۔
گنتی کے یہ تین جوڑے جنرل ضیا نے سی کر سب سے پہلے اپنے ایک "فاتح” کو پہنائے تھے جو اکثر خاموش رہتے تھے۔آج ضیا الحق اور ان کےخاموش فاتح نہیں ہیں مگر وہ تین جوڑے پہلے سے کہیں بہتر حالت میں موجود ہیں۔نوے کے اوائل میں نواز شریف بخشش کے امیدوار ہوئے تو ہارون صاحب نے گنتی کے یہ تین جوڑے میاں صاحب کو پہنا دیے۔ سن 2000 کے بعد میاں صاحب کے خیالات بدلے تو اپنے کالموں میں گنتی کے یہ تین جوڑے انہوں نے عمران خان کو پہنانا شروع کردیے۔ کبھی کبھی شہباز شریف اور چوہدری نثار کو بھی پہنا دیتے تھے۔ مسلم لیگ میں یہی دو دانے بچ گئے تھے جو کسی حد تک رحمتِ خدا وندی کے مستحق تھے۔
وکلا تحریک کے نتیجے میں ججز جب تک بحال نہیں ہوگئے یہ تین جوڑے جسٹس افتخار چوہدری کے پاس تھے۔ بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں ایک کم گو سپہ سالار کی اہمیت بہت واضح ہوگئی۔ ہارون صاحب نے پوری ایمانداری سے گنتی کے یہ تین جوڑے ان کے واڈروب میں پہنچا دیے۔ ایک سال ایسا بھی آیا کہ سپہ سالار کا وزن گرنے لگا۔ کسی نے بتایا کہ سالار نے دوپہر کا کھانا ترک کردیا ہے۔ اول تو ہارون صاحب کو لگا کہ وہ ڈائٹ پر ہیں، مگر پھر حیرت بھی ہوئی کہ ایک سلم سمارٹ ورزشی آدمی کو ڈائٹ کی کیا ضرورت؟ بھئی کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ بے حد اصرار کے ساتھ پوچھا تو سپہ سالار نے ان کو بتایا، دراصل تنخواہ کا بیشتر حصہ یتیموں اور بیواؤں پر خرچ کیا جاتا ہے۔دو چار پیسے جو بچ جاتے ہیں ان میں تیسرے وقت کھانے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ سگرٹ سگار کے خرچے خدا غیب سے پورے کرتا ہے۔
لوگوں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو جج کرلیتے ہیں۔ جیسے سالار کی صحت دیکھ کر ہارون رشید صاحب نے جج کرلیا کہ نعوذباللہ وہ ڈائٹ پر ہیں۔آسٹریلیا میں چہل پہل دیکھ کر کچھ لوگوں نے جج کرلیا کہ سالار نے خدانخواستہ خزانے پر ہاتھ صاف کرلیا ہے۔ ہارون رشید صاحب نے اصرار کے ساتھ ابھی تک اُن سے پوچھا نہیں ہے ورنہ وہ ضرور بتاتے کہ سالار جزیروں پر کرپشن کرکے نہیں پہنچتے، فتح کر کے پہنچتے ہیں۔ تزویراتی گہرائیوں یعنی Strategic depth کے پیش نظر وہ ریٹائرمنٹ سے بہت پہلے طے کرچکے ہوتے ہیں کہ ریٹائرڈ ہوتے ہی کون سا ملک فتح کرنا ہے۔ احتیاطا بال بچے پہلے ہی بھیج دیتے ہیں تاکہ وقت آئے تو نصرتِ خداوندی میں لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ریٹارمنٹ کا پہلا گھنٹہ بھی پاکستان میں نہیں گزارتے۔ وقت ضائع کیے بغیر سعودیہ اور امارات کی طرف نکل جاتے ہیں۔
ان میں ایک صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے ہی ملک کی خدمت جاری رکھنا چاہتے تھے، مگر حاسدوں نے بہتان باندھ دیے۔ سچ سامنے آیا تو بہتان لگانے والوں کو شرمندگی ہوئی۔لے دے کر پاپا جونز کے نام سے کچھ تنور نکلے جس میں روٹیاں لگاکر وہ گزر بسر کرتے تھے۔ یہ تنور انہوں نے پاکستان میں لگائے تھے کہ کچھ بیواؤں اور یتیموں کا بھی بھلا ہوجائے، لیکن ففتھ جنریشن وارفئیر نے ان کو دُکھی کردیا۔ دل پر پتھر رکھ کر وہ بچوں کے پاس امریکا چلے گئے۔ جس دن وہ گئے ہیں اس دن سے قدرت نے پاکستان کو اوپر تلے ٹیکسوں میں جکڑ لیا ہے۔ تیل کی دھار تیز ہوگئی ہے روٹی مشکل ہوگئی ہے۔ ناقدری اور ناشکری کا ایسا انجام ہم سے پہلے صرف بنی اسرائیل نے دیکھا تھا۔
سپہ سالار کم گو تھے، اس لیے انہوں نے صرف دوپہر کا کھانا چھوڑ کر ہارون رشید صاحب کو حیرت میں ڈالا۔ فاتح مگر کم گو نہیں تھے، مکمل خاموش تھے۔ اس لیے انہوں نے دو سو کا ادھار مانگ کر ہارون صاحب کو حیرت کا نسبتا بڑا جھٹکا دیا۔ ہارون صاحب ہق دق رہ گئے کہ تین تاریخ ہے اور فاتح کو ادھار پیش آگیا؟ ہارون صاحب نے بہت اصرار کر کے پوچھا تو فاتح نے بتایا، جو تنخواہ آتی ہے اس سے افغانستان میں کچھ بیواؤں کے گھر راشن ڈل دیتا ہوں۔ جو دو چار پیسے بچ جاتے ہیں اس کا کیا کرتے ہیں؟ افسوس کہ فاتح نے بروقت اس سوال کا جواب نہیں دیا۔
جو ریزگاری بچ جاتی تھی وہ فاتح سوئس اکاونٹ میں رکھوا دیتے تھے۔ انیس سو اٹھاسی میں اگر انہیں علم ہوتا کہ موت کے لیے اگست کا مہینہ معتین ہے تو بروقت ہارون صاحب کو بتادیتے کہ سوئس اکاونٹ میں بیواؤں کی امانت رکھی ہے۔ افغانستان سے کوئی حاجت مند رابطہ کرے تو مہینے کا راشن باندھ دینا۔
مومن کو دوسرے مومن پر نیک گمان رکھنے کا حکم ہوا ہے۔ ہارون صاحب کی ہی تحریر میں کہیں پڑھا تھا کہ ہمایوں اختر بالکل باپ پر گئے ہیں۔ روکھی سوکھی پر گزارا کرتے ہیں اور سینہ ایمان کے نور سے روشن رکھتے ہیں۔ روایت نبھانے کے لیے کبھی کبھی ادھار مانگ کر ہارون صاحب کو شرمندہ بھی کردیتے ہیں۔امید کی جانی چاہیے کہ مرحوم کی دولت سے وہ بیواؤں کی بھوک مٹارہے ہوں گے۔ نیک امید اس لیے بھی رکھنی چاہیے کہ جو دولت مرحوم چھوڑ کر گئے تھے وہ انڈے بچے دے کر چاروں اور پھیل چکی ہے۔ بیشک، جو راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں خدا دو گنا کر کے انہیں واپس لوٹاتا ہے۔
یقین نہ آئے تو اُس دولت کا انجام دیکھ لیں جو نواز شریف، بے نظیر اور زرداری نے انہی سوئس اکاونٹس میں رکھوائی تھی۔عمران خان صاحب دل سے چاہتے تھے کہ لوگوں کے بھلے کے لیے وہ دو سو ارب کے یہ ڈالر پاکستان لے کر آئیں۔ ایک ارب لوگوں پر لگائیں اور ایک ارب آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں۔
خدا نے اختیار و اقتدار سونپا تو ان کے وزرا نے پہلے سترہ حملے بھی سوئس اکاونٹس پر کیے۔ لوگ امید سے ہوگئے تھے، مگر اسد عمر نے ایک دن بہت افسردہ دل کے ساتھ پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر بتایا کہ سوئس اکاونٹس میں رکھے اربوں ڈالر والی بات بس ایک کہانی ہی تھی۔ ہم نے بھرپور کوشش کی کہ دولت واپس لے آئیں مگر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اکاونٹس میں ایک پائی بھی نہیں ہے۔
اور بیشک وہ لوگ جو گنتی کے تین جوڑے نہیں پہنتے اور بیواؤں کی مدد نہیں کرتے، اُن کے اکاونٹ سے برکت اٹھالی جاتی ہے اور پیسے نابود کر دیے جاتے ہیں۔