کامریڈ محمد ذادہ
نہ خُدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
رہے دل میں ہمارے رنج و آلم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
پاکستان کی 22 کروڑ عوام اور اس میں %98 محنت کش مڈل کلاس طبقہ کسان ۔ کاشتکار ۔ دہقان ۔ مزدور۔ ڈیلی ویجزملازمین ۔ ملز ۔ گارمنٹس ۔ فیکٹری ملازمین ۔ نیم سرکاری ملازمین ۔ دوکاندار ۔ ٹرانسپورٹرز ۔ اساتذہ ۔ ڈاکرز نرسز ۔ گھریلو خواتین مزدور ۔ سکول ۔ کالجز ۔ اور یونیورسٹیز طلباء ۔ بیروزگار اور برسرروزگار نوجوان اور متوسط طبقہ کیوں حقیقت اور سچائی سے دور رہ کر ان %2 سرمایہ دار اور جاگیرادار طبقے کی غلامی کو آپنے آپ پر حاوی کرچُکے ہیں۔۔۔
کیا یہ عوام آب تک اس غفلت کی نیند میں سوئی ہوئی ہے یا اس سے نکلنے کا راستہ نہیں اپنا رہی
کیا ان نامساعد حالات میں ہم برابر کے شریک نہیں۔؟
کیا ہمارا بھی کچھ فرض نہیں بنتا کہ ہم ان سبز باغ دکھانے والوں کے بارے میں کچھ پل کیلئے ذرا سوچ لیا کریں۔۔
کیا ہم اتنے بیوقوف تھے کہ ہم دن کے وقت بھی خواب دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ اور سرکس چلانے والوں کی جے جے کار کر رہے تھے۔۔۔۔
جس نے پچھلی حکومتوں میں ہوئی مہنگائی کو کم کرنا تھا۔۔۔
جس نے آئی ایم ایف سے پاکستان کی جان چھڑانی تھی۔۔۔۔۔
جس نے پٹرول کو 45 روپے لیٹر کرنا تھا۔۔۔۔۔
جس نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ کرنا تھا۔۔۔۔
جس نے کرپشن ختم کر کے پاکستان کو کرپشن میں 117 ویں نمبر سے نیچے لانا تھا۔۔۔
جس نے سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا رول ختم کرنا تھا۔۔۔
جس نے انصاف کیلئے کام کرنا تھا اور اپنی پارٹی کا نام بھی ایسا ہی تجویز کیا۔۔۔۔۔۔
جس نے تھانہ کچہری کلچر کو ختم کرنا تھا اور اصلاحات کرنی تھی۔۔۔۔
جس نے 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینی تھی۔۔۔۔۔
جس نے گورنر ہاؤس پہ بلڈوزر چلانے تھے ۔۔۔۔
جس نے وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانا تھا۔۔۔
جس نے کم سے کم کابینہ رکھنا تھا۔۔۔۔
جس نے کے پی کے میں 350 ڈیم بنانے تھے۔۔۔۔
جس نے 200 ارب باہر ملکوں پڑا پاکستانی روپیہ پاکستان لانا تھا۔۔۔
جس نے آئی ایم ایف کے مُنہ پر قرضہ واپس مارنا تھا۔۔۔
جس نے قرض نہ لینے اور بھیگ نہ مانگنے کی قسمیں کھائی تھی۔
جس نے ادویات سستی کرنی تھی۔۔۔۔
جس نے پروٹوکول کے بغیر عام جنتا کے سامنے جاناتھا۔۔۔
جس نے ریاست مدینہ بنانا تھا۔۔
جس نے تبدیلی کے نام پر 90 دن میں پورا سسٹم بدلنا تھا۔
ان میں جو رہ گئے ہوں وہ آپ لوگ بتا دیں ۔۔۔۔
اور جو پورء ہوگئے ہیں وہ بھی بتا دیں۔۔
اور ان میں جس جس چیز نے مزید ترقی کی ہے مطلب پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے وہ بھی ضرور بتا دیں۔۔۔
تاکہ کپتان ریاست مدینہ کے آمیرالمومنین اور تبدیلی سرکار کو لانے والے سلیکٹرز یا وہ بے بس عوام جو عمران خان کو اُمید کی آخری کرن سمجھ کر اس پر آندھا اعتماد کر چُکے تھے آب اس کی ٹیم اور سپورٹرز کو بھی معلوم ہوجانا چاہیئے کہ کہانی کہاں پر آٹکی ہے۔۔۔
تو حضرات کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی کیونکہ آپوزیشن میں بیٹھ کر بڑے بڑے تقاریر کرنے والے لیڈرز مختلف پارٹیوں کے ممبرز اور پاکستان کی بڑی جماعتوں کے سربراہان اول تو آپنی باری پوری کرچُکے ہیں یا آپنی آگلی باری کے انتظار کیلئے تھرڈ آمپائر اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں تاریخ پر پر تاریخ دیکر اُن سرمایہ دارانہ ٹولے اور سلیکٹرز کی داد یا آپنی گٹھ جوڑ میں مشغول ہیں اور ہم پھر بھی سچائی کو سمجھنے سے کوسوں دور ہیں یا سچ جان کر بھی آنجان بن کر ناٹک ہی کرتے ہیں۔۔۔ اور یہی سوچتے ہیں کہ اپوزیشن موجودہ حکومت کیخلاف عدم اعتماد لاکر اس سسٹم کو بدل دینگے مگر اس کی کوئی گارنٹی نہیں کیونکہ اپوزیشن میں انتظار کرنے والی پارٹیاں بھی اس سرمایہ دارانہ اور فرسودہ نظام کی پیداوار ہیں۔
سرمایہ دار اور جاگیردار تو کسی بھی مُلک کیلئے خیرخواہ نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ سوائے سرمائے کے کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے۔۔۔
تو اس میں دوشی یہاں کے %98 محنت کش مڈل کلاس طبقہ ہے جو آج بھی اسی اُمید میں بیٹھے ہیں کہ آسمان سے کوئی فرشتہ آئے گا اور یہاں سب کچھ ٹھیک کریگا۔
ایسا ہرگز نہیں اور نہ ناممکن ہیں یہ سرمائے کے خلاف جنگ ہمیں خود لڑنی ہوگی اور اس فرسودہ نظام اور سرمایہ دار مافیا کے خلاف آگے آنا ہوگا نہ جمہوریت نہ مارشل لاء اور نہ آمریت بلکہ ایک نئی صبح کی تلاش میں چہرے نہیں سماج کو بدلنے اور کھسوٹ کے راج کو بدلنے کیلئے بائیں بازو کی سیاست کا ساتھ دیکر یہاں سوشلسٹ انقلاب کا راستہ اپنانا ہوگا۔۔۔
یہی ایک ہی راستہ ہے جو اس سسٹم کے متبادل کے طور پر کارگر ثابت ہوگا۔