رپورٹ: گل حماد فاروقی
چترال میں معدنیات کی کانکنی سے وابستہ لوگوں نے مقامی لوگوں کو نظر انداز کرکے غیر مقامی با اثر لوگوں کو لیز دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کے قدرتی وسائل پر جابرانہ قبضہ کرکے بیرونی سرمایہ داروں ککے حوالہ کیا گیا تو وہ اپنے حقوق کے دفاع کے لئے تمام دروازہ کحتختائیں گے اور پرامن احتجاج کریں گے۔
ان خیالات کا اظہار کانکنی کے لیز ہولڈرز نے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا جس کی صدارت شہزادہ رضاء الملک نے کی۔
انہوں نے کہا کہ چترال کے غریب کاروباری لوگ بڑی مشکل سے بغیر کسی حکومتی امداد کے پہاڑوں پر چڑھ کر محتلف معدنیات کی کانوں کو دریافت کرتے ہیں مگر جب یہ لوگ اتنی محنت کے بعد اس کی لیز کیلئے درخواست دیتے ہیں تو محکمہ معدنیات اور متعلقہ ادارے ان کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے ان کانوں کا لیز من پسند افراد کو جاری کرتے ہیں۔
ان لیز مالکان نے ایک پر امن احتجاج بھی کیا اور حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کے حلاف نعرہ بازی بھی کی۔
ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے شہزادہ مدثر الملک نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے صوبائی حکومت نے2008 سے2021 تک چترال کے معدنیات سے مالا مال 80 فیصد علاقے کو 15مختلف کمپیٹیٹیو ریزرؤ بلاکس میں تقسیم کرکے بند کر رکھا تھا۔ جس کا مقصد بیرونی سرمایہ کاروں کو بذریعہ نیلامی بڑے پیمانے پر یہ جگہیں مہیا کرنا تھا۔ تیرہ سالوں کے درمیان صوبائی حکومت اور محکمہ معدنیات نے مختلف فورمز پر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو وسیع پیمانے پر یہ لیز یں لینے کی پیشکش کی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔
بلاآخر یکم جولائی 2021 کو عوامی مطالبے پر صوبائی حکومت نے ان بلاکس کا خاتمہ کر کے آن لائن درخواستیں دینے کی سہولت فراہم کی۔ اس فیصلے کو عوام میں پذیرائی ملی۔ مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے چھوٹے سطح پر اور بڑی سطح پہ معدنیات کی دریافت لائسنس کی پیش کش کی گئیں۔ جس کے نتیجے میں تقریبا 500 سرمایہ کاروں نے چھوٹےپیمانے پہ پراسپیکٹنگ لایسنس اور کئی بیرونی اور مقامی کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر ایکسپلوریشن لایسنز کے لیئے دلچسپی ظاہر کیں اور درخواستیں دیں۔ ان کے علاوہ حکومت نے سیکشن 10 کے تحت گورنمنٹ اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مقامی کمپنیوں کو وسیع پیمانے پر لیزیں الاٹ کرانے کے لیے درخواستیں طلب کیں۔لگ بھگ 30 لیزیں منظور بھی کرائی گئیں۔
یہ سارا معاملہ ہونے کے بعد ابھی صوبائی حکومت ان پہاڑوں کو دوبارہ بلاک کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سرمایہ کاروں کی طرف سے ان سابقہ بلا کس کی حدود میں آنے والی لیز کی درخواستوں کو مسترد کیا جا رہا ہے۔ ان بلاکوں کی بحالی کے لیے مشیر برائے محکمہ معدنیات کے ذریعے حال ہی میں سمری تیار کی گئی ہے جو منظوری کے لئے وزیر اعلی کو بھیجی جائے گی۔
ایک طرف محکمہ معدنیات جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے ساتھ معدنی وسائل کی میپنگ اور معدنی وسائل کی نشاندہی کے لیے 324 ملین روپے کی لاگت سے سروے کروا رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف چترالی عوام کے بلاک ایریاز کو اوپن کرنے کا جھانسہ دے کر مقامی افراد کے ذریعے قیمتی پتھروں، صنعتی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے معدنیات،، ڈائمینشن اسٹونز، اور دہاتیوں کے جگہوں کی نشاندہی کرواچکی ہے۔ بغیر کسی سرکاری خرچہ کے ان جگہوں کی نشاندہی مکمل ہونے کے بعد مقامی افراد کے ان درخواستوں کو منسوخ کر کے بڑے پیمانے پر اپنے منظور نظر لوگوں کو ان کا لیز دینے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
لیکن چترال کے غیور عوام یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دے گی۔ سالانہ کروڑوں روپے کا ریونیو ضلع چترال سے صوبائی حکومت کو جمع ہونے کے باوجود ان بلاکس کی بحالی ایک سوالیہ نشان ہے۔ مائین اینڈ منرل کی ترقی کا نعرہ لگانے والی پی ٹی آئی کی حکومت کے اس فیصلے سے معدنیات کا شعبہ چترال کے دونوں اضلاع میں زوال پذیر ہوگا۔
شہزادہ رضا ء الملک نے کہا کہ چترال ایک دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ ہے جو کہ خیبر پختونخوا کا رقبے کے لحاظ سے 25 فیصد ہیے۔ چترال کے عوام کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر صوبائی حکومت پہلے ہی چترال کی 95 فیصد اراضی لینڈ سیٹلمنٹ کے ادارے کے ذریعے سرکاری قرار دے چکی ہے۔
چترال کے جنگلات پر محکمہ جنگلات اور محکمہ جنگلی حیات نے پہلے ہی پابندی لگا رکھی ہے۔ پورے ضلع چترال میں دریائے کے کنارے ریت بجری نکالنے اور کرش پلانٹس پر پابندی ہیے۔ چترال میں روزگار کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری سے تنگ سالانہ بیسیوں نوجوان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔
چترال کے عوام نے اپنی امید یں ان پہاڑوں سے لگا رکھی تھی کہ بلاک ایریاز کے کھلنے کے بعد شاید روزگار کے مؤاقع پیدا ہوں لیکن موجودہ حکومت شاید چترال کے عوام پر روزگار کے تمام دروازے بند کرنا چاہتی ہے۔ چترال کے 80 فیصد علاقہ کو بلاجواز دوبارہ بند کرکے چترالی عوام سے جینے کا حق بھی چھیننا چاہتی ہیے۔
انہوں نے کہا کہ 14850 مربع کلومیٹر سے زائد رقبے والی ایک آزاد اور خودمختار ریاست کو پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کرنے کا یہ صلہ چترالی عوام کو دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت عوام دشمن اقدامات کرنے سے گریز کریے۔ صوبائی حکومت اگر چترالی عوام کو روزگار نہیں دے سکتی تو دستیاب روزگار کے ذرائع کو بھی عوام سے نہ چھینے۔
مقصو د عالم بیگ لال نے چترال منرلزاینڈ مائنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے خیبرپختونخواء کے وزیراعلی جو کہ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، سے مطالبہ کیا کہ اگر انہوں نے چترال کے بلاک ایریا دوبارہ بحال کی تو پورے چترال میں اس فیصلے کے خلاف سخت احتجاج کی تحریک شروع کی جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر انہیں مجبور کیا گیا تو وہ اس فیصلے کو اعلی عدالتوں میں چیلنج کریں گے۔
ایسوسی ایشن کے اراکین اقلیتی امور پر وزیر اعلےٰ خیبر پحتون کے معاون حصوصی وزیر زادہ کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ وہ کہ وہ ان بلاک ایریا کو دوبارہ بحال نہ کرنے کے حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ایسوسی ایشن کے اراکین نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعلی خیبر پحتون خواہ محمود خان، عارف احمدزائی مشیر برائے معدنیات، ہمایون خان سیکرٹری ماینز اینڈ منرلز، حمید اللہ جان ایڈیشنل سیکرٹری مایننگ عوامی مطالبے اور مفاد کے پیش نظر اس مسئلے کو جلد حل کرلیں گے۔
معراج حسین اور دیگر نے انکشاف کیا کہ ان معدنیاتی ذحائیر کو سال 2013 سے 2021 تک بلاک کئے گئے تھے اور آٹھ سال بند رہے قانون کے مطابق 8 سال سے زیادہ عرصہ کیلئے ان کو بلاک بھی نہیں کیا جاسکتا۔
جاوید یونس نے بتایا کہ یہ حکومت کی ایک پالیسی بھی تھی کہ چترال کے پورے ریجن کو مسابقتی بڈنگ بلاکس بنا کر ان کی نیلامی کی جائیگی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو لائیں گے۔ ہم نے تیرہ سال اس کا انتظار کیا کہ حکومت باہر سے سرمایہ کار لائے گی وہ چترال کے معدنیات میں سرمایہ کاری کریں گے اور مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ مگر اس میں حکومت بری طرح ناکام ہو۴ی اور باہر سے ایک روپیہ کی بھی سرمایہ کاری نہ لاسکے۔ مگر جب انہوں نے جولائی میں اسے حتم کیا ہے تو پانچ سو سے زیادہ لوگوں نے رجوع کیا ہے اور ان لوگوں نے کیا ہے مگر حکومت اسے ایک بار پھر بلاک کرنا چاہتی ہے جس سے سرمایہ کاری کو بہت بڑا دھچکہ ملے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ایک بار پھر اپنی غلطی کو نہ دہرائے بلکہ مقامی لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے کا موقع دے جو کہ ہمارا قانونی اور اخلاقی حق بھی ہے۔
ہمارے نمائندے نے چترال بازار کا بھی سروے کرکے پتھروں، معدنیات اور اس سے متعلقہ چیزوں کا کاروبار کرنے والے لوگوں اور دکانداروں سے بات کی۔ سلیم خان کا تعلق کریم آباد وادی سے ہے جو پچھلے دس سالوں سے قیمتی پتھروں کا کاروبار کرتا ہے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ان کو بلاک کرے تو ہمارا روزگار بھی متاثر ہوگا۔
شیر اکبر کا تعلق پرسن وادی سے ہے ان کا کہنا ہے کہ چترال کے ہزاروں لوگوں کا روزگار ان معدنیات کے کانوںسے وابستہ ہیں۔ اگر حکومت ان کو حتم کرے تو ان ہزاروں لوگوں کا روزی روٹی کا سلسلہ بھی بند ہوجاے گا۔
امان اللہ خان کا بھی کڑوپ رشت بازار میں قیمتی پتھروں کا دکان ہے ان کا کہنا ہے کہ میں پچھلے دس سالوں سے جیمز سٹون کا کاروبار کرتا ہوں اس سے نہ صرف میرا بلکہ ان پتھروں کو لانے والے، ان کی کدھائی کرنے والے،ڈرائیور، اور کئی دیگر مزدوروں کا بھی روزگار وابستہ ہے اگر حکومت ان کو بند کرتی ہے تو یہ سب لوگ فاقہ کشی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی محمود خان سے اپیل کی کہ چترال کے غریب عوام کو خودکشی پر مجبور نہ کرے اور ان کو روزگار کے مواقع فراہم کرے جس کا آسان حل یہ ہے کہ ان معدنی ذحائیر کو بلاک نہ کرے۔
اس صنعت سے وابستہ افراد نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے ہمارا جائز مطالبہ نہیں مانا تو وہ مجبوراً سڑکوں پر نکل آئیں گے اور کسی بھی طرح حالات حراب ہونے کی ذمہ داری انتظامیہ اور حکومت پر ہوگی۔