اعجاز احمد سے دلی میں چند ملاقاتیں 130

ممتاز عالمی مارکسسٹ دانشور اعجاز احمد (1941-2022ء) وفات پا گئے

بشکریہ جدوجہد


بائیں بازو کے معروف عالمی دانشور اور اکیڈیمک اعجاز احمد گذشتہ روز کیلی فورنیا میں وفات پا گئے۔ ان کی عمر 81 سال تھی۔

اعجاز احمد ہندوستان میں پیدا ہوئے لیکن تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آ گیا تو وہ بھی پاکستان چلے آئے۔ یہاں انہوں نے لاہور میں یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا۔ دوران طالب علمی بائیں بازو کے نظریات سے وابستہ ہو گئے اور بائیں بازو کی تحریکوں کے علاوہ ٹریڈ یونین کے پلیٹ فارم سے بھی مزدوروں کو منظم کرنے کے کام میں متحرک رہے۔

1970ء کی دہائی میں امریکہ چلے گئے۔ 1985ء میں وہ بھارت چلے گئے اور بائیں بازو کی مختلف تحریکوں سے وابستہ رہے۔ انہوں نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پڑھایا بھی۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے اشاعت گھر، لیفٹ ورڈ بُکس، کے بانیوں میں سے تھے۔

2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعد ان کے لئے ہندوستان میں رہنا مشکل ہو گیا تو وہ واپس امریکہ چلے گئے جہاں وہ کیلی فورنیا یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔

وہ نصف درجن سے زائد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان کی سب سے مشہور کتاب ’اِن تھیوری: کلاسز، نیشنز، لٹریچر‘ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں کسی نہ کسی شکل میں پڑھائی جاتی ہے۔ اسے عہد حاضر کی اہم ترین اکیڈیمک کتابوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

اس کتاب میں انہوں نے ایڈورڈ سعید کی معروف کتاب ’اورنٹیل ازم‘ پر مارکسی نقطہ نگاہ سے جو تنقید کی، اسے ایڈورڈ سعید کی کتاب اور تھیوری پر ایک اہم حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح معروف امریکی اکیڈیمک فریڈرک جیمز سن پر بھی ان کا تنقیدی مضمون دنیا بھر کی جامعات میں پڑھایا جاتا ہے۔

ان کے مضامین سوشلسٹ رجسٹر، منتھلی ریویو، فرنٹ لائن کے علاوہ ماضی میں پاکستان کے مختلف جریدوں میں بھی شائع ہوتے رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں