امیرجان حقانی
جمشید خان دکھی 5جون 1956ء کو محی الدین کے گھر پیدا ہوئے۔ انیسویں صدی کے آخر میں ان کے دادا کشمیر سے گلگت آئے تھے ،یوں دکھی صاحب نسلاً کشمیری تھے۔ ان کی والدہ اخونزادہ فیملی گلگت سے تھی۔ جمشید دکھی کے دادا بہترین نجار تھے اوران کی نجاری کے کئی نمونے ایوم نگر اور ہنزہ نگر کے محلات میں اب بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ گلگت میں جمشید دکھی کے ننھیال علوم بکھیر رہے تھے اور ددھیال فن تعمیر میں اپنا لوہا منوارہے تھے۔پروفیسر عثمان علی کے مطابق جمشید دکھی کے خاندان کا تعلق ترکھان مغل قبیلے سے ہے۔گریجویشن تک تعلیم حاصل کی، محکمہ جنگلات گلگت بلتستان میں طویل عرصہ خدمات انجام دیے۔دکھی صاحب کے علمی و قلمی مشاغل کو دیکھ کر محکمہ جنگلات نے ان کے لیے پبلک ریلیشن آفیسر کی خصوصی پوسٹ کریٹ کی یوں وہ 5جون 2016ء کو بطور پبلک ریلیشن آفیسر ریٹائٹرڈ ہوئے۔
جمشید دکھی کی پوری زندگی کتاب، قلم، شاعری اور محبتِ انسان سے تعبیر تھی۔ وہ مجسم محبت تھے۔ وہ حلقہ ارباب ذوق گلگت بلتستان کے جنرل سیکریٹری اور یوتھ ہاسٹل گلگت کے آنریری سیکریڑی رہے۔ بلتستان یونیورسٹی نے دکھی کواعزازی سفیر شعبہ ادب و ثقافت مقرر کیا تھا۔ جمشید دکھی کی علمی و ادبی خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ چند ایک کا مختصر ذکر کیے دیتا ہوں۔ میرے نزدیک ان کا سب سے اہم کام ” انسائیکلوپیڈیا آف فوک لور (حصہ شنا)”ہے۔ یہ علمی کاوش لوک ورثہ اسلام آباد کی نگرانی میں پایہ تکمیل کو پہنچی اوریہ تحقیقی کام 2005کو منصہ شہود پر آیا۔میں نے اپنے ریسرچ ورک میں اس سے خوب استفادہ کیا ہے۔اخبارات میں حلقہ ارباب ذوق کی روائیداد بھی خوب لکھا کرتے۔کئی علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سمینارز میں مقالے اور شاعری سنائی،علامہ اقبال کا کلام شینا زبان میں منظوم کیا۔قائداعظم پاکستان زبانوں کے آئینے میں، قائداعظم شینا زبان و ادب کے آئینے میں جیسے درجنوں اہم عنوانات پر شاندار مقالے لکھے۔کالمز اور شاعری پر کئی کتب زیر طبع ہیں۔امید کی جاسکتی ہے کہ بہت جلد چھپ کر منصہ شہود پر آئیں گی۔کئی نامور لکھاریوں نے دکھی صاحب کی خدمات پر تفصیلی تحاریر لکھیں ہیں۔دکھی صاحب گلگت بلتستان کی علمی، ادبی، مذہبی اور روحانی مجالس کی جان ہوا کرتے تھے ۔جس محفل میں بھی جاتے محفل ،پروگرام اور سیمنار لوٹ ہی لیتے۔وہ سامعین کو مبہوت کرتے۔کلام سناتے سناتے ان پر وجدانی کیفیت طاری ہوتے اور سامعین پر بھی وجدان غالب آجاتا۔
میری خوش قسمتی یہ ہے کہ بالخصوص گلگت بلتستان کے اہل علم و قلم سے دوستی کے رشتے سے بندھ جاتا ہوں اور پھر یہ رشتہ تاحیات چلتا رہتا ہے۔ محترم جمشید خان دکھی بھی ان لوگوں میں سے ایک تھے جن سے میری دوستی کا آغاز 2010ء میں ہوچکا تھا۔اگرچہ دکھی صاحب کی کتب اور ان کی شاعری سے زمانہ طالب علمی میں ہی استفادہ ہوتا رہتا تھا مگر باقاعدہ بالمشافہ استفادہ 2010سے شروع ہوا۔حلقہ ارباب ذوق کی محفلوں میں شرکت کے لیے دکھی صاحب کا بلاوا ہمیشہ آجاتا لیکن میں کم ہی جایا کرتا ، وہاں شعراء لوگ اپنا کلام پیش کرتے اور ہمیں صرف” واہ واہ” کا موقع ملتا۔بدقسمتی سے میرا مزاج واہ واہ کا نہیں،بلکہ تنقیدی ہے۔ اس لیے حلقہ کی محفلوں میں تب جاتا جب کسی بڑی شخصیت پر مجھے مقالہ پیش کرنا ہوتا یا گفتگو کرنی ہوتی،یا کسی کتاب کی تقریب رونمائی ہوتی۔
گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی پر اپنے تحقیقی پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے دکھی صاحب کے پاس حاضر ہونا پڑتا۔ان کی شاعری میری تحقیق کا حصہ ہے بلکہ حلقہ ارباب ذوق کی جملہ کاوشوں کا مختصر ذکر میرے مقالہ میں آگیا ہے۔ان محافل کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا ہے جن میں مذہبی رواداری،سماجی و بین المسالک ہم آہنگی او رقیام امن کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء و شیوخ اور دانشوروں کو حلقہ ارباب ذوق نے مختلف ادوار میں مختلف محافل میں جمع کرکے مشاعرے کیے اور ان سے تقاریر کروائی۔یقینا گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے لیے حلقہ ارباب ذوق کا بڑا کردار ہے۔ادب اور شاعری کے اس کردار کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اپنے تحقیقی پروجیکٹ کے حوالے سے سال 2020ء میں ان کے گھر خصوصی حاضری ہوئی۔انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کا سارا ریکارڈ میرے سامنے رکھ دیا۔یہ تفصیلات دکھی صاحب نے اپنے ہاتھ سے قلمبند کی ہیں۔ میں اپنی ضرورت کی ایک ایک چیز نوٹ کرتا گیا۔ پھر دکھی صاحب نے اپنی شاعری کا غیر مطبوعہ مسودہ تھما دیا اور کہا کہ جو جو حصہ نوٹ کرنا ہے کرلیجیے۔قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے حوالے سے کہا گیا کلام کا ،موبائل سے سکین کرتا جاتا تھا۔ دکھی صاحب مسلسل اشیاء خورد و نوش سے تواضع فرماتے جاتے تھے اور میرے سوالات کے جوابات بھی دیے جارہے تھے۔ اچانک میں نے دکھی صاحب سے کہا”۔سر ان تمام مجموعوں کے کئی سیٹ بنا کر مختلف لائبیریریوں میں دے دیجیے۔ یہ جو آپ کے پاس ریکارڈ ہے یہ قوم کی امانت ہے۔زندگی موت کا کچھ پتہ نہیں”۔میری بات غور سے سننے کے بعد انہوں نے اک قہقہہ لگایا اور فرمایا ” حقانی بھائی ! میں اتنی جلدی کہاں مرنے والا”۔ یقین جانیں مجھے انتہائی شرمندگی ہوئی اور بہت پیشمان ہوا کہ میں نے لاشعوری میں کیا کہہ دیا۔ خیر پھر سے سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا اور میں دکھی کے دسترخوان پر قلم پروری کے ساتھ شکم سیری بھی کرتا جاتا تھا۔
جمشید دکھی صاحب اور عبدالخالق تاج کی دوستی بے مثال تھی۔ میں نے ایسے بوڑھے دوست کم دیکھے ہونگے جو دوستی کرتے کرتے بوڑھے ہوئے ہوں۔بہت دفعہ ہماری خصوصی بیٹھک ہوتی تھی۔ کبھی میرے غریب کدے میں کبھی دکھی صاحب کے دولت کدے میں اور کبھی کسی ہوٹل اور کبھی کسی مجلس اور بہت دفعہ سرراہ ملاقات ہوجاتی۔ دکھی اور تاج کا یارانہ کمال کا ہوتا۔عموما تاج صاحب دکھی صاحب کو سناتے رہتے ۔تاج صاحب کا مزاج ہی ایسا ہے سامنے سامنے کہہ کرفارغ ہوجاتے ہیں۔ اپنے ہوں یا غیر، شرابی ہوں یا مولوی،پارسا ہوں یارسیا، تاج صاحب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔دکھی صاحب کو جب سناتے تو وہ صفائی دیتے ہوئے کہتے ، تاج صاحب کو بڑھاپا لاحق ہے اس لیے مجھ بوڑھے کو بھی معاف نہیں کرتے۔یقینا دکھی صاحب کی وفات حسریات آیات پربہتوں کو دکھ ہوا، ان کی فیملی کو شدید تکلیف ہوئی۔ لیکن میری دانست میں سب سے زیادہ تاج صاحب کو تکلیف ہوئی ہے۔اب تاج صاحب کو ایسا یارغار کہاں سے ملے گا؟ یہ دوستی دو چار سال نہیں پانچ عشروں پر مشتمل تھی۔مجھے یہ لکھتے ہوئے بھی ڈر سا لگ رہا ہے کہ کہیں تاج صاحب مجھے بھی سُنا نہ دیں۔ویسے تاج صاحب کونسا مجھے معاف کرتے ہیں۔ ہر وقت سُناتے ہی رہتے ہیں اور میں بھی منتظر رہتا کہ وہ کب سُنائے یعنی کھری کھری۔تاج صاحب صرف ان کو سُناتے ہیں جن سے محبت کرتے ہیں اور سب سے زیادہ محبت ”ملا و شیخ ” سے کرتے ہیں اس لیے انہیں خوب سُنا کر ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔
جمشید دکھی کے ساتھ بڑی حسین یادیں وابستہ ہیں۔ ایک ایک کا ذکر کروں تو سینکڑوں صفحات ہونگے۔کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ دور سے اہل علم مہمان آتے، انہیں دکھی صاحب سے ملنا ہوتا اور میں انہیں، لے کر دکھی صاحب کی ملاقات کے لیے ان کے گھر حاضری دیتا۔اور پھر مارخور کے گوشت سے لے کر چیری تک کھاکر ، خوب ہنسی مزاق اڑا کررخصت ہوجاتے۔ میرے مہمان دکھی صاحب کی منکسرالمزاجی، محبت، خلوص،رواداری اور مہمان نوازی دیکھ کر مزید ”عشق دکھی” میں پکے ہوجاتے۔میں نے دس سالہ قیام گلگت میں قاضی نثاراحمد اور جمشید دکھی سے بڑا مہمان نواز کسی کو نہیں دیکھا۔یہ دونوں ہر آنے والے مہمان کی گھر میں ضیافت انتہائی خوش دلی اور خندہ پیشانی سے کرتے تھے۔مہمان کو زبردستی کھلاتے اور مزید کھانے پر اصرار کرتے۔قاضی صاحب کے علاوہ دکھی صاحب ہی تھے جو مہمان کو کھلا پلا کربہت خوش ہوتے تھے۔مجھے درجنوں دفعہ اس کا تجربہ ہوا۔
ایک دفعہ مجھ سے بڑے دکھی انداز میں کہا: ” حقانی! ہم بھی صدیق اور عمر رضی اللہ عنہم پر بار بار شاعری کرنا چاہتے ہیں، کلام سنانا چاہتے ہیں، ہمیں اس کے لیے پلیٹ فارم ہی مہیا نہیں کیا جاتا، اوپر سے کچھ ناہنجار طعنے بھی دیتے ہیں کہ ہم صرف اہل بیت پر شاعری اور مشاعرے کرتے ہیں، کوئی موقع تو دے پھر دیکھیں ہماری شاعری خلفائے راشدین پر، کل قیامت کے دن اللہ نے پوچھا تو ہم شعراء آپ مولویوں کو کھڑا کردیں گے کہ یااللہ! انہوں نے ہمیں بلایا ہی نہیں اور نہ ہی ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے”۔یقین کریں دکھی صاحب کے اس درد کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔میں نے اپنے بساط کی کوشش بھی کی۔ مگر بہرحال مجھے ناکامی ہوئی کہ شعراء کرام حضرات خلفائے راشدین اور صحابہ کرام پر کلام لکھیں اور پڑھیں اور محفلیں سجیں۔
جمشید دکھی حقیقی معنوں میں بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار تھے۔ان سے بڑا مذہبی روادار گلگت بلتستان میں کوئی نہیں تھا۔ اگر کاغذ کے ان صفحات میں گنجائش ہوتی تو ان کی بین المسالک ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور سماجی صبر و تحمل پر کی جانے والے شاعری کے سینکڑوں حوالے پیش کروں مگر دکھی مرحوم کی شاعری میں جو وسعت ہے وہ کاغذ کے ان اوراق میں کہاں۔وہ جو بات محفل میں ، شاعری میں، اور اپنی تقاریر وتحاریر میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی و مذہبی رواداری پر کیا کرتے تھے وہی نجی محفل اور اپنے انتہائی چاہنے والے دوستوں کے پاس بھی کرتے۔ ورنا بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے کہ عوامی تقاریر و مجالس اور تحاریر و شاعری میں تو سماجی ہم آہنگی اور قیام امن کی بات کرتے ہیں لیکن جونہی اپنی نجی محفلوں میں ہوتے ہیں یا اپنے خاص لوگوں ، ہم مکتب و مسلک احباب کی محفل میں ہوتے ہیں تو دوسروں پر تبرا کیے بغیران کی محفل آگے نہیں بڑھتی۔یہ دل گردہ اللہ نے دکھی کو ہی دیا تھا جو ظاہر و باطن میں ایک ہی تھے۔
دکھی صاحب کے پاس کبھی کریمی کو لے کر حاضر ہوتا تو کبھی سلیمی کو لے کر پہنچ جاتا اور کبھی کسی نئے آنے والے مہمان کو۔بہت دفعہ جب پریشان ہوتا تو ان کو فون کرتا۔ وہ کہتے آجاو، یوتھ ہاسٹل میں ہوں دودھ پتی چائے پلاتا ہوں۔ کبھی ہم دونوں کسی ہوٹل میں بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتے۔بہت سارے لوگ جانتے ہونگے کہ دکھی صاحب صرف نثر نگار یا شاعر نہیں تھے بلکہ صاحب دل انسان تھے۔ وظائف اور اذکار کے ان کے خاص معمولات تھے جن پر سخت پابندی کرتے تھے۔نماز کے انتہائی پابند تھے۔قرآن کریم کے عاشق تھے۔ ان کی شاعری میں قرآن کے سینکڑوں حوالے ہیں۔سورہ فاتحہ کااردو اور شینا زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ بہت سارا کلام آیات قرانی کا ترجمہ ہوتا۔گزشتہ سال ” نسالو کڑاہی” کی تصاویر دیکھ کر،وہ چاہتے تھے کہ نسالو کے گوشت کی دعوت ہوجائے۔اس کا محرک تاج صاحب کی وہ تحریر بھی تھی جو انہوں نے راقم کی تیارہ کردہ ”نسالوکڑاہی” پر لکھی تھی۔اس سال پکا ارادہ کیا تھا کہ دکھی، تاج اور کچھ دیگر احباب کو ”نسالو کڑاہی” کھلائی جائے مگر بدقسمتی سے وہ بیماری کی وجہ سے اسلام آباد میں تھے پھر یوں ہوا کہ میں دکھی اور احباب کی مہمان داری سے محروم بلکہ دکھی صاحب سے ہی محروم ہوا، کیونکہ وہ مرحوم ہوئے۔ان کو مرحوم لکھتے ہوئے بھی ہاتھ کانپ رہے ہیں۔دکھی صاحب سے اتنی قربت تھی مگر ان کی بیماری کا اندازہ نہیں تھا۔ ہمیں کیا اندازہ ہوتا انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا۔ ہم اس جیتے جاگتے انسان کو بیمار بھی کیسے سمجھتے جو ایف سی روڈ سے کشروٹ تک ، کبھی سرینہ سے ہوتے ہوئے واپس ایف سی روڈ تک کو واک کیا کرتے۔ان کی بیماری کی اطلاع تو تھی مگر وقفے وقفے سے اسلام آباد میں ان کی محافل کی تصاویر اور کبھی سنائی گئی شاعری کی ویڈیو وائرل ہوتی اور ہم سمجھتے کہ معمول کے امراض ہونگے لیکن ان کے انتقال سے تین دن پہلے جب وہ گلگت میں تھے عیادت کے لیے گیا۔ واللہ دل بیٹھ گیا۔ ان کے بیٹے ان کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔میں نے بہت چاہا کہ تھوڑی دیر دکھی صاحب کے ہاتھ پیر دباوں، مگر پھر سوچا، معلوم نہیں شہری لوگ ہیں، میری اس حرکت کو کیا سمجھیں گے کیونکہ میں بعض معاملات میں کورا دیہاتی ہوں۔ ہمت نہ کرسکا۔اگلے دن نماز جمعہ کے بعد دکھی صاحب کے لیے اجتماعی دعا کروایا اور اپنے فیس بک احباب سے بھی دعا کی خصوصی درخواست کی۔ہماری دعائیں بھی رنگ نہیں لائی اور دکھی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں تو دلبرداشتہ سا ہوجاتا ہوں۔ اب پیار محبت کی باتیں کس سے کروں،کس کے گھر شہتوت کھانے پہنچ جاوں، کون مجھے چیری کھلائے گا۔بہت سارے بزرگ اہل علم وقلم آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں لیکن وہ بھی بیماری کی حالت میں ہیں۔ان کے پاس اپنے دکھ بانٹنے کے لیے جانا بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ انہیں بھی ضعیفی نے پکڑ رکھا ہے اور پھر وہ جمشید دکھی بھی تو نہیں۔سچ یہ ہے کہ جمشید دکھی کا نعم البدل نہیں ہے میرے لیے۔اللہ انہیں کروٹ کروٹ راحتیں نصیب کرے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور میرے انتہائی قابل قدر محسن ڈاکٹر قبلہ ایاز نے گزشتہ سال مجھے حکم فرمایا کہ ”ہم سوچ رہے ہیں کہ گلگت بلتستان سے نظریاتی کونسل میں نمائندگی ہو، اس کے لیے آپ نے اپنی تحاریر سے توجہ بھی دلائی ہے۔ اب آپ ایسے کچھ اشخاص کی سی وی ارسا ل کیجیے جن کا علمی و انتظامی تجربہ بھی ہو، کسی یونیورسٹی کا چانسلر،پروفیسر، محقق عالم دین،ریٹائرڈ جج یا بیوروکریٹ وغیرہ ہوں لیکن ان کا علمی، سماجی اور بین المسالک ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے لیے بہترین کام ہو، اور علاقے کے تمام لوگ ان کی خدمات کے معترف بھی ہوں”۔ یقین کیجیے، کئی دن ایسی صفات والی شخصیات پر غور و فکر کرتا رہا، بالآخر مجھے جمشید دکھی کے علاوہ کوئی نہیں ملا جس میں یہ جملہ صفات موجود ہوں۔ دکھی صاحب سے یہ ساری تفصیل شیئر کی اور انہیں سی وی تیار کرنے کی گزارش کی، انہوں نے ایک بہترین سی وی تیار کرکے مجھے تھمادی اور میں نے ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کو ارسال کر دی۔یقینا انہوں نے اپنے مشاورتی فورم میں رکھا ہوگا اور وہ اقدام کرتے ہی ہونگے لیکن دکھی صاحب رب کے حضور حاضر ہوئے۔
٢١ فروری ٢٠٢٢ ء کو ان کا انتقال ہوا۔ سٹی پارک میں ان کا نماز جنازہ ادا کیا گیا اور ان کے ابائی قبرستان کشروٹ میں تدفین کی گئی۔شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں نے اور جملہ مسالک کے عوام و خواص نے دکھی کا غم منایا۔ ہرایک تعزیت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوتا رہا۔یقینا یہ دکھی کا حق بھی تھا کہ ان کی تعزیت اور فاتحہ کے لیے ہر کوئی بلا رنگ و نسل اور مذہب و مسلک حاضر ہو۔سوشل میڈیا،ویب سائٹس اور اخبارات نے بھی دکھی صاحب کی رحلت پربھر پور خبریں شائع کی۔ریڈیو پاکستان گلگت نے بھی پہلے ہی دن مختلف اہل علم و قلم اور ذمہ دار لوگوں سے دکھی صاحب کی رحلت پر تعزیتی ریکارڈنگ کی اور نشر کیا۔میں نے بھی ریڈیو پاکستان کے احباب کو اپنی گزارشات ریکارڈ کروائی ۔دکھی کی موت پر ہر انسان دکھی تھا۔میری دانست میں پروفیسر عثمان کے بعد یہ اعزاز جمشید دکھی کو ملا کہ ہر ایک نے ان کا غم منایا۔اللہ سے دعا ہے دکھی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ان کی اولاد کیساتھ عبدالخالق تاج و صبر جمیل بھی دے اور نعم البدل بھی عطا کرے۔آمین