اقبال خورشید
یہ چار عشروں پرانا منظر ہے۔
ایک قیدی نقاہت کے باوجود سر اٹھائے، وقار کے ساتھ مسلح افراد کے جلو میں جیل کی نیم روشن راہ داریوں سے گزر رہا ہے۔ ایک قیدی، جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی اساطیر بننے والا ہے۔
یہ کہانی 18 مارچ 1978ء کو شروع ہوئی جب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ یوں ملک کے سابق وزیرِ خارجہ، سابق صدر اور سابق وزیرِاعظم نے کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نمبر 1772 کی حیثیت اختیار کرلی۔
کون جانتا تھا کہ نواب محمد احمد کا قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔ یہ واقعہ 11 نومبر 1974ء کو لاہور میں پیش آیا۔ نواب محمد احمد، احمد رضا قصوری کے والد تھے۔ وہ بھٹو کے ناقد بھی تصور کیے جاتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں یہ کیس سرد خانے میں پڑا رہا مگر 5 جولائی 1977ء کو مارشل لا نافذ ہوا تو اس کیس میں جان پڑگئی۔ 3 ستمبر کو معزول وزیرِاعظم کو رات کے اندھیرے میں 70 کلفٹن سے گرفتار کرلیا گیا۔ اکتوبر 1977ء میں یہ کیس لوئر کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ پہنچ گیا اور اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔
بے رحم وقت نے پاکستان کے طاقتور ترین شخص کو مصائب کے منجدھار میں لاچھوڑا۔ بھٹو نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو بھٹو کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے پنڈی جیل منتقل کردیا گیا اور یہی وہ جگہ تھی جہاں وہ اپنی زندگی کے آخری 323 دن گزارنے والے تھے۔
پنڈی جیل کی پُراسرار سرگرمیاں
پنڈی جیل میں ایک اہم قیدی آنے والا تھا جس کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ کوٹھریوں کے کچے فرش کو کھود کر لوہے اور کنکریٹ کا مضبوط فرش بنایا گیا تاکہ سرنگ کھودنے کا خدشہ نہ رہے۔ چھت توڑ کر فرار کا امکان ختم کرنے کے لیے آہنی چھت بنائی گئی تھی۔ بھٹو کے سیل میں جاسوسی کے آلات نصب تھے اور جیل کی سیکیورٹی پر فوجی جوان تعینات تھے۔
16 مئی 1978ء کی رات پنڈی جیل کی سیکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کو پیغام ملتا ہے کہ اگلی صبح 5 بجے دھمیال ایئربیس پر ’صوفہ سیٹ‘ وصول کریں۔ اشارہ ملک کے سابق وزیرِاعظم کی سمت تھا۔ اگلی صبح جب ذوالفقار علی بھٹو ہیلی کاپٹر سے باہر آئے تو ایک صدمہ ان کا منتظر تھا۔ انہیں ایئربیس سے جیل لے جانے کے لیے قیدیوں کی وین کا انتظام کیا گیا تھا۔ تب بھٹو نے غصے میں کہا کہ ’تمہیں شرم آنی چاہیے، کیا اس سے بہتر گاڑی کا بندوبست نہیں ہوسکتا تھا؟‘
شاید ذوالفقار علی بھٹو اب بھی خود کو وزیرِاعظم سمجھ رہے تھے۔ عوام کا منتخب نمائندہ، ہر دل عزیز لیڈر، اور ایسا وہ 3 اپریل کی شام تک سمجھنے والے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ یہ مقدمہ فقط ایک سیاسی اسٹنٹ ہے۔ وہ یقین سے کہا کرتے تھے کہ میرے سر کی قیمت پاکستان ہے! مگر وہ غلط تھے۔
آئیے پنڈی جیل چلتے ہیں، وہ جیل جس نے کئی عجیب مناظر دیکھے۔ بیگم بھٹو کے سامان کی تلاشی، نوجوان بے نظیر بھٹو کا اپنی سالگرہ کا کیک لیے جیل کے آہنی دروازے پر دستک دینا، بھٹو سے تمام سہولیات چھن جانا اور آخرکار ایک فاتح کا موت سے ہم کنار ہونا۔
6 فروری 1979ء کو پنڈی جیل کی بلند اور خاردار دیواریں عبور کرکے ایک غیر متوقع خبر ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی۔ سپریم کورٹ نے سابق وزیرِاعظم کی اپیل مسترد کردی تھی۔ بھٹو کی مشکلات میں مزید اضافہ ہونے والا تھا۔ 24 مارچ 1979ء کو سپریم کورٹ میں نظرثانی پٹیشن بھی نامنظور ہوگئی۔ اب بھٹو کو اپنے سوجے ہوئے مسوڑوں اور گرتی صحت کے ساتھ اپنے تاریک سیل میں موت کا انتظار کرنا تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں ایک طوفانی رات وہ اسٹریچر پر لیٹے پھانسی گھاٹ کی سمت جانے والے تھے۔
آخری صبح، آخری ملاقات
وہ 3 اپریل کی صبح تھی۔ جب بھٹو بیدار ہوئے تو یکسر لاعلم تھے کہ یہ ان کی زندگی کا آخری دن ہے۔ جیل حکام کو ان کی موت کا پروانہ وصول ہوچکا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہی جیل کی ٹیلی فون لائنیں کاٹنے کے احکامات تھے۔ صرف ایک وائرلیس سیٹ کام کر رہا تھا، جس پر پھانسی کے بعد سیکیورٹی سپرنٹنڈنٹ کو بلیک ہارس کا کورڈ ورڈ کہنا تھا۔
سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اچانک 3 اپریل کی صبح ملاقات کی اطلاع دی جاتی ہے۔ گاڑی انہیں لے کر 11 بج کر 15 منٹ پر جیل میں داخل ہوتی ہے۔ اس موقع پر جب بیگم بھٹو نے سپرنٹنڈنٹ پولیس یار محمد سے پوچھا کہ ’یہ ملاقات کس سلسلے میں ہے؟‘، تو انہیں جواب دیا گیا کہ ’میڈم، یہ آخری ملاقات ہے‘۔
ملاقات ساڑھے 11 بجے شروع ہوئی۔ بھٹو سیل کے اندر فرش پر بیٹھے تھے۔ سلاخوں کے اِدھر ایک لوہے کی کرسی پر بیگم بھٹو موجود تھیں۔ بالکل خاموش، آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ بے نظیر بھٹو سیل کے سامنے فرش پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ باپ بیٹی کے درمیان آہنی سلاخیں حائل تھیں۔ ملاقات 2 بجے تک جاری رہی۔ اس ملاقات میں وہ عجیب و غریب لمحہ بھی آیا جب بھٹو نے بے نظیر کو ایک طرف ہونے کو کہا اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو بلایا اور پوچھا کہ ’کیا یہ آخری ملاقات ہے؟‘، انہیں جواب ملا کہ ’جی سر، سب ختم ہوچکا ہے‘۔
کیا بھٹو خاندان نے رحم کی اپیل کی؟
کرنل رفیع الدین کی مشہور زمانہ کتاب ’بھٹو کے آخری 323 دن‘ میں ایک رحم کی اپیل کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس کتاب کے مطابق 3 اپریل کی ملاقات کے بعد جب ماں بیٹی سیل سے باہر آئیں، تو انہوں نے کرنل رفیع الدین (مصنف) سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ بیگم بھٹو جنرل ضیا الحق، جو کرنل قذافی اور برطانوی وزیرِاعظم کی بھٹو سے متعلق اپیل اور درخواست رد کرچکے تھے، کے نام رحم کی آخری اپیل کرنا چاہتی تھیں۔
کرنل رفیع الدین کے مطابق یہ اطلاع اس وقت کے ایس ایم ایل اے، بریگیڈیئر خواجہ راحت لطیف کو پہنچا دی گئی۔ رحم کی اپیل کی اطلاع جب جنرل ضیا الحق تک پہنچی تو ایک اعلیٰ افسر کو نصرت بھٹو سے ملنے سہالہ ریسٹ ہاؤس بھیجا گیا، جہاں بیگم بھٹو نے انہیں صدر کے نام ایک تحریری درخواست دی۔ انگریزی میں تحریر کردہ ایک صفحے کے اس خط کا وہی نتیجہ نکلا جو اس سے پہلے کی اپیلوں کا نکلا تھا۔ فیصلہ ہوچکا تھا۔
شاید یہ خط آج بھی کسی ریکارڈ میں موجود ہو۔ برسوں بعد میجر جنرل خواجہ راحت لطیف نے بھٹو پر کتاب لکھی تو اس خط کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی کیا۔
آخری چند گھنٹے
6 بج چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی 12 فٹ لمبی، ساڑھے 7 فٹ چوڑی کوٹھری میں زمین پر پڑے گدے پر دراز ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد، سیکیورٹی بٹالین کمانڈر لیفٹننٹ کرنل رفیع الدین، مجسٹریٹ درجہ اوّل مسٹر بشیر احمد اور جیل ڈاکٹر صغیر حسین نے سیل میں آکر انہیں بلیک وارنٹ پڑھ کر سنایا۔
بھٹو نے لیٹے لیٹے یہ حکم سنا، ان کے چہرے پر کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ انہوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ’نہ تو طریقہ کار کے مطابق ان کے دیگر رشتہ داروں کو ان سے ملوایا گیا، نہ ہی پھانسی کا تحریری حکم نامہ دکھایا گیا، اور نہ ہی انہیں قانون کے مطابق 24 گھنٹے پہلے مجاز اور مستند حاکم کے ذریعے اطلاع دی گئی‘۔
انہوں نے دانتوں کی تکلیف کے باعث اپنے معالج ڈاکٹر ظفر نیازی سے ملنے کی بھی خواہش ظاہر کی۔ شاید بھٹو صاحب اب بھی اس کارروائی کو ڈھونگ سمجھ رہے تھے، مگر کرنل رفیع سے اکیلے میں ہونے والی گفتگو کے بعد انہیں ادراک ہوا کہ صورتحال بدل چکی ہے۔
انہوں نے کرنل رفیع کو مخاطب کیا ’رفیع یہ ڈراما کھیلا جارہا ہے؟‘
جواب میں افسر نے کہا کہ ’آخری حکم مل چکا ہے، آپ کو پھانسی دی جارہی ہے‘۔
انہوں نے پوچھا ’کس وقت، کب؟‘
کرنل رفیع نے 7 انگلیاں اٹھائیں ’جناب، 7 گھنٹے بعد‘۔
وقت قطرہ قطرہ کرکے گزر رہا تھا۔ بھٹو نے اپنے مشقتی عبدالرحمٰن سے کہا کہ ان کی داڑھی بڑھ چکی ہے، شیو کا بندوبست کیا جائے۔ بھٹو نے 7 بج کر 5 منٹ پر شیو کی۔ اس دوران وہ اپنے ساتھ برتی جانے والی ناانصافیوں اور ناروا سلوک کا شکوہ کرتے رہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں پھانسی پر چڑھانے کے بعد ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے والوں کو چھوڑ دیا جائے اور یہ کہ ان کی گھڑی وارڈ کے باہر کھڑے سنتری کو دے دی جائے۔
8 بج کر 15 منٹ پر انہوں نے وصیت لکھنی شروع کی، مگر ان کا ذہن منتشر تھا۔ گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی تھیں، موت کا لمحہ قریب آتا جارہا تھا۔ 11 بج کر 25 منٹ پر وہ سونے کے لیے لیٹ گئے۔
بھٹو کی خاموشی اور تارا مسیح
جیل حکام آخری لمحات میں بھٹو پر طاری ہونے والی پُراسرار بے ہوشی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جب 11 بج کر 50 منٹ پر انہیں جگانے پہنچا تو بھٹو صاحب نے اس کی آوازوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جیل ڈاکٹر نے 3 بار ان کا معائنہ کیا۔ وہ بظاہر ٹھیک تھے مگر بالکل خاموش اور ساکت لیٹے تھے۔
دوسری طرف جلاد تارا مسیح کو لاہور سے بذریعہ وین راولپنڈی جیل پہنچا دیا جاتا ہے۔ وہ اس بات سے لاعلم تھا کہ اسے کس مقصد کے لیے یہاں لایا گیا ہے۔ راولپنڈی میں واقع مسجد مولانا غلام غوث ہزاروی کے خادم حیات محمد کو یہ کہہ کر کہ ایک میت کو غسل دینا ہے، پولیس وین میں پورا شہر گھمانے کے بعد پنڈی جیل کی اس کوٹھری میں دھکیل دیا گیا جہاں تارا مسیح اگلے احکامات کا منتظر تھا۔
ایک بج کر 10 منٹ پر آخر بھٹو خود گدے سے اٹھے۔ وقت ہوچکا تھا، گرم پانی موجود تھا، مگر انہوں نے نہانے سے انکار کردیا۔ وہ رات تاریک تھی، جیل میں بارش ہوئی تھی اور آسمان پر گہرے بادل تھے۔ انتظامیہ نے اسٹریچر اور پیٹرومیکس کا بندوست کیا ہوا تھا۔
جیل حکام بھٹو کے سیل تک گئے۔ مجسٹریٹ نے ان کی وصیت کے بارے میں پوچھا مگر خیالات منتشر ہونے کے باعث وہ کچھ لکھ نہیں سکے تھے۔ مجسٹریٹ اور ان کے درمیان گفتگو جاری تھی کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے حکم پر 4 آدمی اندر داخل ہوئے۔
پھانسی گھاٹ کی سمت سفر
وہ ایک دل سوز منظر تھا۔ بھٹو پر نقاہت طاری تھی۔ جو شخص کل تک عالمِ اسلام کا اہم ترین رہنما تصور کیا جاتا تھا اسے اسٹریچر پر پھانسی گھاٹ کی سمت لے جایا جارہا تھا۔ مشقتی عبدالرحمٰن آنکھوں میں آنسو اور ہاتھ میں چائے کا کپ لیے سامنے کھڑا تھا۔ پھانسی گھاٹ 250 گز دُور تھا۔ اس دوران مکمل خاموشی رہی۔ بس قدموں کی دھمک تھی۔ ایک موقع پر بھٹو نے نصرت بھٹو کے تنہا رہ جانے پر غم کا اظہار کیا۔ پھر خاموشی چھا گئی۔
آخر وہ لمحہ آگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بے تاثر چہرہ لیے دار پر کھڑے تھے۔ وہ اس موت سے چند لمحے دُور تھے جو بھٹو کو دائمی زندگی بخشنے والی تھی۔ جان تو جانے والی تھی مگر شان سلامت رہنی تھی۔
ہتھکڑی کھول کر بھٹو کے ہاتھ پیچھے باندھ دیے گئے۔ تارا مسیح نے چہرے پر سیاہ ماسک چڑھا دیا۔ بھٹو نے کہا ’Finish it‘۔
2 بج کر 4 منٹ پر جلاد نے لیور دبایا۔ بھٹو ایک جھٹکے سے پھانسی کے کنویں میں گرے۔ ان کا جسم کچھ دیر دھیرے دھیرے ہلتا رہا اور پھر ساکت ہوگیا۔ پھانسی گھاٹ میں بہت دیر تک خاموشی رہی، گہری اور اداس خاموشی۔
بھٹو کی لاش اتارے جانے کے بعد کرنل رفیع نے ایس ایم ایل اے سے وائر لیس سیٹ پر رابطہ کیا اور ’بلیک ہارس‘ کہا۔ چند تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت جنرل ضیا الحق بھی یہ پیغام سن رہے تھے۔
موت کی خبر
حضرات، بھٹو کی موت کی خبر کو مخفی رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ سہالہ ریسٹ ہاؤس، جہاں بھٹو بیگمات نظر بند تھیں اور پنڈی جیل، دونوں دنیا سے کٹ چکے تھے۔ شہر کے داخلی حصوں پر کڑا پہرا تھا مگر کسی نہ کسی طرح یہ خبر سرحد پار گئی اور 4 اپریل 1979ء کو صبح 7 بجے آل انڈیا ریڈیو نے سب سے پہلے سابق وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر نشر کی۔
بعد کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے۔
کیا بھٹو کا فیئر ٹرائل ہوا؟
بھٹو کی پھانسی اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی۔ اہم ترین سوال تو یہی تھا کہ نواب محمد احمد کے قتل میں سزائے موت پانے والے دیگر 4 مجرموں کی بھٹو کے خلاف گواہی کیا قانوناً قابلِ قبول اور قابلِ اعتبار تھی؟
بھٹو کے ٹرائل پر بھی سوالات اٹھے۔ ہائی کورٹ کے جس بینچ نے بھٹو کا مقدمہ سنا اس کی سربراہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کر رہے تھے جنہیں ضیا الحق نے لگایا تھا۔ سپریم کورٹ میں بھٹو کا کیس سننے والے جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں انہیں بھٹو کا دشمن قرار دیا تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کا یہ بیان بھی انتہائی اہم ہے کہ ’بھٹو کے وکیل نے اپنے دلائل سے ججز کو ناراض کر دیا تھا‘۔
کیا سفید ہاتھی بھٹو سے ناراض تھا؟
ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ امریکا بھٹو صاحب سے ناراض تھا اور انہیں نشانِ عبرت بنانا چاہتا تھا۔ اس ضمن میں ہینری کسنجر کی بھٹو کو دھمکی اور سابق امریکی اٹارنی ریمزی کلارک کا نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے، جس میں وہ بھٹو کے اقتدار سے محرومی کو امریکی آشیرباد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا نے بھٹو کو سرد جنگ میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے راستے سے ہٹایا۔ بھٹو صاحب نے خود بھی یہ بیان دیا کہ سفید ہاتھی ان سے ناراض ہے۔
حرف آخر
بھٹو کو سزائے موت سنانے والے اور بھٹو کی لاش وصول کرنے والے دونوں کو ہی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایوب خان کی کابینہ سے اپنا سیاسی کیریئر شروع کرنے والا ذوالفقار علی بھٹو اپنی موت کے بعد یوں امر ہوجائے گا۔
میرے نزدیک یہ بھٹو کی موت ہی تھی کہ جس نے پاکستان پیپلزپارٹی میں نئی روح پھونکی، یہ بھٹو کی موت تھی کہ جس نے اس جماعت کو 3 بار اقتدار دیا، یہ بھٹو کی موت ہی تھی کہ جس نے بے نظیر بھٹو کو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بنایا۔
اور یہ بھٹو کی موت ہی تھی، جس نے خود بھٹو کو زندہ رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈان اردو ۔ اقبال خورشید
حوالہ جات
’بھٹو کے آخری 323دن‘ از کرنل رفیع الدین
بی بی سی کی رپورٹس
جسٹس نسیم حسن شاہ کا ٹی وی انٹرویو، پروگرام ’جوابدہ‘
کرنل رفیع الدین کا ٹی وی انٹرویو پروگرام ’جوابدہ‘
پاکستان کے سیاسی قتل: از سلیم احمد