96

سیاست اور مذہب کارڈ

سید مہدی بخاری


اتحادیوں بالخصوص نون لیگ کا سب سے بڑا بلنڈر یہ ہے کہ ان کا کُل بیانیئہ فرح گوگی، توشہ خانہ اور عمران کو فاشسٹ کہنے کے گرد گھومتا رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ جیسے بدنام کردار کو داخلہ کی ذمہ داری سونپ دی جن کا کام روز منہ سے توپ چلانا ہے۔ ترجمانی مریم اورنگزیب کے سپرد کر رکھی ہے جو خود اپنی ذات میں لطیفہ ہیں۔ معیشت مفتاح اسماعیل کو دے دی جن کی اچیومنٹ کو کو مو بسکٹ بنانے کی فیکٹری چلانا ہے۔سنجیدہ لوگوں کو آگے نہیں کیا گیا۔اس پر سہاگا یہ کہ پنجاب میں حمزہ کو مسلط کر کے رہی سہی کثر بھی پوری کر دی۔

اس اتحادی حکومت میں اگر کوئی سلجھا ہوا سیاسی کردار اب تک سامنے آیا ہے تو وہ بلاول ہے جس نے دورہ امریکا میں نپی تلی اور سیدھی گفتگو کی ہے۔ گو کہ بلاول کو وزارت خارجہ جیسی ذمہ داری دے دینا کوئی سیانا کام نہیں اور ان کو ”اکاموڈیٹ” کرنا مجبوری بھی تھی مگر بلاول نے تاحال کوئی بھنڈ نہیں مارا۔

عمران خان کی کامیابی یہ کیا کم ہے کہ حکومت سے نکل کر بھی ہر جگہ ان کا ذکر ہے اور پاکستان کی ساری سیاست ان کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے لے کر اتحادیوں تک کے گلے میں وہ کانٹے کی طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کی کامیابی ہے۔ اور اس کامیابی کا سہرا ان کے بیانئیے کو جاتا ہے۔

اس ملک میں دو چیزیں آپ جب چاہیں بیچ لیں۔ ایک ہے “خودداری” یا دوسرے الفاظ میں امریکہ مخالف جذبات۔ اور دوسری ہے مذہب۔ اور جب آپ تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر منہ سے ریاست مدینہ کے ساتھ خودداری کا ورد بھی کرنے لگیں تو یہ ڈیڈلی کمبینیشن ہے۔ حکومت میں رہے تو سارا عرصہ ریاست مدینہ ہی تعمیر فرماتے رہے۔ عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب ہیں۔

سیاست میں مذہب کارڈ کے بے دریغ استعمال پر کئی لوگ کہتے ہیں کہ سارا کیا دھرا ضیا الحق کا ہے۔ حالانکہ ضیا نے بس اتنا ہی تو کیا تھا کہ جو پودا ورثے میں ملا اسے برابر پانی دیتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ ایسا گھنا برگد بن گیا جس کے سائے تلے آج تک کوئی متبادل بیانیہ نہیں پنپ سکا۔

بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ ریاستی قانون سازی کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر وہ ووٹ بینک تاحیات مذہبی سیاسی جماعتوں سے چھین لیں گے۔ مگر 1977 کے آئین میں شامل مذہبی شقوں پر اظہارِ اطمینان کے باوجود صرف تین برس بعد پاکستان قومی اتحاد کی جماعتیں دوبارہ سڑکوں پر نظامِ مصطفی کے نفاذ کا نعرہ لگا رہی تھیں۔ لاہور کی اسلامی سربراہ کانفرنس، شراب پر پابندی اور جمعہ کی چھٹی بھی بھٹو صاحب کی پھانسی کو عمر قید میں نہ بدلوا سکی۔

واہ واہ سمیٹنے کے لیے تو اصولی و نظریاتی سیاست بہت اچھی ہے مگر شارٹ کٹس سے اٹے سیاسی کلچر میں راتوں رات ووٹ بینک دگنا کر کے کرسی تک پہنچنے کی دوڑ میں اصول اور نظریہ راستے میں ہی ہانپ کے گر پڑتے ہیں۔ اور سب سے بہترین شے جو حصول اقتدار کے لئے استعمال ہو سکتی ہے وہ ہے مذہب کارڈ۔

سیاسی لیڈران بھی خوانچہ فروش ہوتے ہیں۔ جس طرح خوانچہ فروش دو وقت کی روٹی کے لیے موسم کا پھل اور سبزی بیچنے پر مجبور ہیں اسی طرح اقتداری خوانچہ فروشوں کا دھندہ بھی جیسا موسم ویسا پھل، جیسی جگہ ویسی بات،جیسا گاہک ویسا ریٹ کے اصول پر چلتا ہے۔

مذہب کو سیاست میں عموماً وہاں گھسیٹا جاتا ہے جہاں سیاست کا مقصد عوام کی خدمت کے بجائے خود خدمتی کا کاروبار ہوتا ہے۔ نئے آئیڈیاز کے ذریعے کون نیک نامی کمائے جب مذہب کارڈز اتنے ہی موثر ہیں جتنے کل تھے۔سیاست میں مذہب کی ملاوٹ کرنے والوں کا خیال ہوتا ہے کہ پاک نظریے کے چند قطرے استعمال کر کے سیاست کو بھی پوتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہیں یہ خیال تھوڑی ہوتا ہے کہ اس عمل سے وہ دراصل نظریے کو بھی نہ صرف ناپاک کر رہے ہیں بلکہ اگلی سیاسی پود کو یہی عمل اپنے مقاصد کے حصول کے لیے زیادہ شدت کے ساتھ جاری رکھنے کی راہ بھی دکھا رہے ہیں۔

گاندھی جی سیکولر بھی تھے اور رام راج بھی قائم کرنا چاہتے تھے۔ جناح صاحب سیکولر بھی تھے اور ایک ایسا وطن بھی بنانا چاہتے تھے جسے اسلام کے آفاقی اصولوں کے تجربے کی لیبارٹری بنایا جا سکے۔ ہندو مسلم ایکتا کے وکیل گاندھی جی کو یہ تھوڑی معلوم تھا کہ ستر برس بعد ان کی رام راجی لاٹھی ہندوتوائی اژدھا بن جائے گی۔ یا جناح صاحب کو یہ علم تھوڑی تھا کہ وہ جس لیبارٹری میں “دین میں کوئی جبر نہیں” کی اسلامی تعلیم کی آزمائش کے خواہش مند ہیں وہی لیبارٹری ستر برس میں ہائی جیک ہو کر ایک بارود ساز فیکٹری بن جائے گی۔

آج کے حالات میں عمران خان کامیابی سے اپنا بیانئیہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کا اثر مستقبل میں کیا ہو گا اور حکومت واپس ملنے پر یہ بیانئیہ کس رفتار سے آگے بڑھے گا ، بڑھے گا یا مقصد پورا ہونے کے بعد رک جائے گا۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال عمران خان ہیں، ان کے ہاتھ بیانئیے کی بین ہے اور ان کے چاہنے والے بین کی دُھن پر مست ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں