عزیز علی داد

گلگت بلتستان میں حقیقت سے فرار

از: عزیزعلی داد کمزور سماج میں مصنوعی ذہانت (AI) انفرادی نفسیات کے کونے کھدروں میں مخفی خواہشات، خوابوں، محرومیوں اور فنتاسیاتی تصورات کو تصویری جامہ پہنائے گی اور یوں حقیقت...

195

چینی تشقرغن اور پاکستانی سوست کا جائزہ

فرمان بیگ


پاکستان افغانستان اور تاجکستان کے سرحدوں سے متصل تشقرغن چین کے صوبہ سنکیانک کے انتہائی مغرب میں تاجک خودمختار علاقے کا ایک اہم قصبہ ہے جو سطح سمندر سے 4000 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔
اس کی آبادی زیادہ تر نسلی طور پر تاجک ہے۔ تشقرغن پرانے شاہراہِ ریشم کا مرکز جانا جاتا ہے۔ چین سے مغربی ایشیاء کی جانب جانے والا مرکزی راستہ بھی یہی سے ہوکر گزرتا تھا۔ یہاں کی اکثریتی آبادی سریقولی کہلاتی ہے۔ ساتھ میں وخی بھی کافی تعداد میں آباد ہیں۔ وخیوں کی آبادی واخان کوریڈور تاجکستان کے خودمختار علاقہ بدخشان اور پاکستان کی وادی ہنزہ میں گوجال، اشکومن، پنیال اور بروغل چترال میں بستی ہے جنہیں پامیری تاجک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انکے علاوہ دیگر قومیتوں اور نسلوں کے افراد بھی بستے ہیں جن میں کرغز، یغور اور ہان نسل کے چینی شامل ہیں۔


تشقرغن نوے کی دھائی سے قبل ایک چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتا تھا۔ ٹھنڈے موسم کی وجہ سے مقامی آبادی کا معاشی دارو مدار گلہ بانی اور یک فصلی کاشتکاری سے منسلک تھا۔ پاکستان اور چین کے درمیان سرحد تجارت اور سیاحت کے لیے کھلنے اور سی پیک پر کام کے آغاز نے ایک طرح سے تشقرغن کی قسمت ہی بدل دی۔ ایک دیہی طرز معیشت جنکا گزر بسر گلہ بانی سے منسلک تھا، آج ایک جدید اور دلکش شہر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ضروریاتِ زندگی کی ہر شے ان کے دروازے پر موجود ہے۔ جدید دور کے تقاضے کے مطابق جہاں مارکیٹیں، دوکانیں، ریسٹورنٹس، فوڈ اسٹریٹ، سیاحتی مقامات، چھوٹے اور درمیانہ درجے سے لے فائیو سٹار ہوٹل، سڑکیں، بجلی، پانی اور سیوریج کی لائینیں اور پارکس اس خوبصورتی سے تعمیر کیے جا رہے ہیں کہئے نہ صرف سیاحوں اور تجارت پیشہ افراد کے لیے بہتر ماحول بنایا جا سکے بلکہ ماحولیاتی تحفظ اور مقامی قدرتی حسن کو بھی برقرار رکھنے اور مزید اس میں بہتری لانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ سیاحت اور تجارت کو بڑھانے کے لیے دو سال کے قلیل عرصے میں جدید طرز کا ائیرپورٹ نہ صرف تعمیر کیا جاچکا ہے بلکہ باقاعدگی سے فلائیٹس کا آغاز بھی ہو چکا ہے جس کی وجہ سے سیاحوں اور تجارتی افراد کی ہر طرف ریل پیل ہے۔
تشقرغن کے مقابلے میں سی پیک کے گیٹ وے سوست ہنزہ پر نظر ڈالے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اٹھارویں صدی کے کسی قصبے میں ہیں۔ نہ کوئی منصوبہ بندی، نہ قانونی تقاضے اور نہ ہی دلچسپی۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ سی پیک کے گیٹ وے میں نہ پینے کے لیے صاف پانی ہے اور نہ بجلی۔ دوسری جانب کسٹم اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں سرکاری خزانے میں اربوں رقم جمع ہونے کے باوجود سوست جو پاکستان کا انٹری پوائنٹ ہے اور ایک طرح ملک کا چہرہ، اس کے باوجود ایک کچی بستی کا منظر پیش کررہا ہے۔ سوائے بے ہنگم تعمیرات کے جو بغیر منصوبہ بندی اور بغیر قانون کے دھڑا دھڑ سرمایہ داروں کے زیادہ سے زیادہ منافع کی لالچ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ہوٹلوں سے لے کر فائیو اسٹار ہوٹلوں کی تعمیرات میں لگے ہوئے یہ دیکھیں بغیر کہ ان ہوٹلوں کے لیے ضرویات کو کیسا پورا کیا جائے گا؟ دوسری طرف ان ہوٹلوں سے نکلنے والے گند اور سیوریج کو کہاں ٹھکانہ لگایا جائے گا؟ ساتھ میں اسی رفتار سے بے ہنگم سیاحت اور ٹرانسپورٹیشن کا بڑھتے ہوئے سرگرمیوں کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ ماحولیاتی آلودگی، علاقے کی قدرتی حسن کی تباہی اور مقامی آبادی کے صحت کے مسائل کی صورت میں سامنے آئے گا۔

سوست

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں