ویب ڈیسک
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پاکستان میں پرامن اجتماع کی آزادی: قانون سازی کا جائزہ کے عنوان سے اپنی تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے۔
تحقیق میں نوآبادیاتی دور کے فرسودہ قوانین پر نظرثانی کرنے اور متعدد کو منسوخ کرنے اور پولیسنگ کے قدیم طریق ہائے کار ترک کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس میں مقننہ، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو بڑی مفّصل سفارشات پیش کی گئی ہیں تاکہ وہ انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے مطابق پرامن اجتماع کے حق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ حنا جیلانی، فرحت اللہ بابر، حبیب طاہر، رِیما عمر اور سروپ اعجاز پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی ورکنگ گروپ نے ایچ آر سی پی کی مدد کی جبکہ تحقیقی کام کا بیڑہ اسفند یار وڑائچ نے اٹھایا۔
پرامن اجتماع کا حق کسی بھی جمہوری معاشرے کی اساس ہوتی ہے۔ تحقیق میں پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 16 میں درج اِس حق کا تجزیہ کیا گیا ہے، نیز اس پر اثرانداز ہونے والی قانونی دفعات اور قواعد و ضوابط کا جائزہ لیا گيا ہے۔،اس کے علاوہ، اس تحقیق کے ذریعے، ایچ آر سی پی نے 2010 سے 2020 کے درمیان ہونے والے اجتماعات کا خاکہ کھینچنے کے قابل ہوا ہے جس سے معلوم ہوا کہ 858 اجتماعات میں سے کم از کم 392 پر ناجائز قدغنیں لگائی گئیں: اِن میں طاقت کا ضرورت سے زائد استعمال، من مانی اور سیاسی بنیادوں پر کی گئی گرفتاریاں اور نظربندیاں، فوجداری یا دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمات کا اندراج، اور بغیر کسی معقول وجہ کے طویل مدت کے لیے اجتماعات پر پابندیاں شامل ہیں۔
تحقیقی مطالعے نے تجویذ کیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کے طریقوں میں بہتری لائی جائے اور اِس ضمن میں اؙنہیں انسانی حقوق اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کے بہتر طریقوں کے بارے میں تربیت دی جائے جس میں انہیں باور کرایا جائے کہ وہ طاقت کا کم سے کم استعمال کیا کریں؛ اجتماعات تک مرکزی اور ڈیجیٹل میڈیا کی آزادانہ رسائی کو یقینی بنایا جائے؛ اور راستے بند کرنے یا مواد سے متعلق پابندیاں لگانے کی بجائے تقریر کی آزادی اور تمام اجتماعات کی آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنایا جائے۔