یاسر پیرزادہ
اچھے وقتوں کی بات ہے، جب ہمارے پاس فراز، ندیم اور منیر نیازی ہوا کرتے تھے، اُن دنوں کا ایک واقعہ یاد آگیا۔یہ لوگ عالمی مشاعرے میں شرکت کے لیے امریکہ جا رہے تھے، دوران پرواز منیر نیازی نے مشروب خاص کچھ زیادہ ہی پی لیا ،جہاز جب نیویارک کے ہوائی اڈے پر اترا تو نیازی صاحب مکمل طور پر ’آؤٹ‘ ہو چکے تھے ، انہیں نیم غنودگی کے عالم میں ائیر پورٹ سے نکال کر ٹیکسی میں بٹھایا گیا۔ مشاعرے سے پہلے وائس آف امریکہ نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیاہوا تھا جس کا موضوع کچھ اِس قسم کا تھا کہ ’جدید عالمی شاعری کے رجحانات اور اردو غزل کا مستقبل ‘۔شعرا جب اِس مذاکرے میں شرکت کے لیے وی او اے کے سٹوڈیو پہنچے تو نیازی صاحب تقریباً نیند میں تھے ، بدقت تمام انہیں کرسی پر بٹھایا گیا اور میزبان نے بھی نہ جانے کیا سوچ کر نیازی صاحب سے ہی پہلا سوال پوچھ لیا:’سامعین ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج اردو ادب کے ستارے یہاں موجود ہیں تو ہم آغاز منیر نیازی سے کرتے ہیں ، نیازی صاحب یہ فرمائیے کہ آج عالمی شاعری جس سطح پر ہے اور اُس میں ہمیں جو جدید رنگ نظر آتا ہے ،خاص طور سے جو لسانی تجربات مغربی شاعری میں کیے جا رہے ہیں، کیا آپ کونہیں لگتا کہ اِس قسم کے تجربات اردو شاعری میں بھی ہونے چاہئیں ، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیجیے کہ معروضی صورتحال میں اردو ادب کے نقادوں نے تہذیبی عناصر کی روشنی میں غزل کے مزاج کو متعین کیا ہے اور اُن میں جملہ نفسیاتی ، حیاتیاتی اور تہذیبی عوامل کا ذکر کیا ہے جن سے اصناف شعر کو سمجھنا آسان ہوگیا ، آپ اِس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟‘جواب میں نیازی صاحب نے اونگھ کر کروٹ بدل لی، میزبان نے اپنا سوال دہرایا مگر نیازی صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا، پروگرام چونکہ براہ راست نشر کیا جا رہا تھا اِس لیے نیازی صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے شاعر نے ہلا جلاکر انہیں اٹھایا اور میزبان کا سوال سنایا۔ نیازی صاحب نے نیم وا آنکھوں سے میزبان کو دیکھا اور کہا’اِس ضمن میں دیگر مہمانوں نے جو بھی کہا ہے میں اُس سے پوری طرح متفق ہوں ۔‘
اس واقعے کا آج کے کالم سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا پپیتے کی قاشوں کا کٹے ہوئےآم سے، دونوں فقط دیکھنے میں ہی ایک جیسے لگتے ہیں۔مذکورہ واقعے کی مماثلت میں بیان کیے دیتا ہوں۔ ۲۱ مئی کو پرویز ہودبھائی نے روزنامہ ڈان میں ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے پاکستان کو درپیش مسائل اور اُن کا حل پیش کرکے دریا کو گویا کوزے میں بند کردیا ۔میں نے صرف یہ کہنا ہے کہ جو کچھ پرویز ہودبھائی نے لکھا، منیر نیازی کی طرح میں اُس سے پوری طرح متفق ہوں ماسوائے اُن باتوں کے جہاں انہوں نے سرخ لکیر عبور کی ہے۔پرویز ہودبھائی درویش آدمی ہیں ، انہیں کسی لکیر کی کوئی پروا نہیں ، میں ٹھہرا دنیا دار ، میں رزق میں کوتاہی افورڈ نہیں کر سکتا ۔یہ (اعلان دستبرداری ) دینے کے بعد عرض ہے کہ پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے وہ ہم نے سالہا سال کی محنت کے بعد اپنے لیے پیدا کیے ہیں ۔جس طرح ایک عام آدمی زندگی میں غلط فیصلہ کرکے اُس کی قیمت چکاتاہے اسی طرح قومیں بھی اپنے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگتتی ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ عام آدمی اپنے احمقانہ فیصلے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگا سکتا ہے جبکہ کسی ملک کے لیے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے فیصلوں کے اثرات بہت دیر سے سامنے آتے ہیں ۔مثلاً افغان جنگ میں ہمارے ملک میں ڈالر آرہے تھے مگر ساتھ ہی اسلحہ اور انتہا پسندی بھی آرہی تھی ، ہماری سرکاری دستاویزات میں کہیں یہ تو لکھا مل جائے گا کہ ۱۹۷۹ سے لے کر ۱۹۸۷ تک ہمیں کتنے ارب ڈالر کی امداد ملی مگر یہ کہیں نہیں ملے گا کہ ملک میں انتہا پسندی کی جو فصل بوئی گئی اُس سے کتنے کھرب ڈالر کا نقصان ہوا۔اگر کوئی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہر سال ہمارے سیاسی فیصلوں کی پڑتال کرکے کوئی ایسی رپورٹ جاری کرے جس سے یہ پتا چلے کہ ہمارے احمقانہ فیصلوں سے کتنے ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے تو ہم اپنا تجارتی خسارا بھول جائیں ۔
ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ آبادی ہے ۔ اگر ہم اسی طرح بچے پیدا کرتے رہے تو پچیس سال بعد ہماری آبادی چالیس کروڑ ہوجائے گی ۔ چالیس کروڑو کی آبادی کا یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہے گا چاہے یہاں تیل ہی کیوں نہ نکل آئے ۔یہ بات لکھتے ہوئے مجھے تکلیف ہورہی ہے مگر سچ یہی ہے کہ اِس ملک کی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے۔یہاں کوئی بندہ کام کرے یا نہ کرے، کھانے کو روٹی ہو یا نہ ہو، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ، برگر ہویا دیسی، ایک بات پر سب کا اتفاق ہے اور وہ ہے شادی کرکے ڈھیر سارے بچے پیدا کرنا۔یہ خطرہ نہ حکومت کے ریڈار پر ہے اور نہ عوام کے، ۲۰۵۰ تک جب اِس ملک کی آبادی چالیس کروڑ ہوگی تو ذرا سوچیں کہ یہاں لوگوں کاکیا حال ہوگا، بائیس کروڑ کے ملک میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے ، ہاؤسنگ سوسائٹیاں زمینوں کو نگل رہی ہیں ، دریا سوکھ رہے ہیں ، جنگلات ایک چوتھائی بھی نہیں رہے،اور دیہات میں قابل کاشت زمین جو ۱۹۴۷ میں چھ ایکڑ فی کس تھی اب سکڑ کر نصف ایکڑ رہ گئی ہے تو ۲۰۵۰ میں ہمارے پاس کتنی زمین اور وسائل بچیں گے ، یہ اندازہ لگاتے ہوئے میں کانپ اٹھتا ہوں۔ہمارا تیسرا مسئلہ تعلیمی معیار ہے ۔ اِس وقت جس قسم کی بچے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم پا رہے ہیں وہ روپیٹ کے کہیں نوکری تو تلاش کر لیتے ہیں مگر اُن میں دو چیزوں کا فقدان ہوتا ہے ، ایک، ہنر کی کمی اور دوسرے تنقیدی شعور۔ہمیں یہ بھی خوش فہمی ہے کہ ہمارے لوگ باہر کے ممالک میں جا کر قابلیت کے جھنڈے گاڑتے ہیں ۔ اِس ضمن میں اتنا بتانا کافی ہے کہ باہر کام کرنے والوں میں سے صرف ایک فیصد ہی انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ کے درجے میں آتے ہیں جبکہ دو فیصد کو آپ اعلیٰ ہنرمندوں کے خانے میں فِٹ کر سکتے ہیں ، باقی ستانوے فیصد بیچارے ترکھان، لوہار ، مزدور اور الیکٹریشن ہیں جو اپنے خون پسینے کی کمائی پاکستان میں اپنے غریب گھر والوں کو بھیجتے ہیں ۔
یہ تین مسائل ایسے ہیں جن کا حل اگر ہم نے نہ کیا تو خاکم بدہم ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ہمیں اپنی معیشت کی سمت درست کرنی ہوگی ، فی الحال اِس کا رُخ جنگ کی طرف ہے ، ہمیں اسے امن کی طرف موڑنا ہوگا۔ دوسرا کام آبادی پر قابو پانا ہے ، اِس کے لیے ہمیں ایک ایسا قابل بندہ چاہیے جو بنگلہ دیش کا ماڈل یہاں نقل کرکے لاگو کردے ، یہ بندہ بیوروکریسی میں بھی ہوسکتا ہے مگر اِس کے لیے سیاسی حمایت درکارہوگی وگرنہ یہ کار ِ لا حاصل ہی ہوگا۔ تیسرا کام اپنے تعلیمی اداروں کی مکمل صفائی ہے ، نصاب کے نام پر جو کچھ ہمارے طلبا کو پڑھایا جا رہا ہے اُس کے نتیجے میں ایسے طوطے پیدا ہورہے ہیں جو محض رٹا رٹایا سبق پڑھتے ہیں ، اُن کا دماغ سوال اٹھانے اور تنقیدی شعور سے عاری ہے ۔ ہمیں اپنا تعلیمی ماڈل ہنر مندی پر شفٹ کرنا ہوگا تاکہ یونیورسٹی سےفارغ ہونے کے بعد ہمارا نوجوان معاشرے کے لیے اثاثہ ثابت ہو نہ کہ الٹا بوجھ بن جائے ، اور ماں باپ یہ سوچ کر اُس کی شادی کردیں کہ بیوی آئے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔اور وہ دونوں یہ سوچ کر بچے پیدا کرنا شروع کر دیں کہ نیا آنے والا اُن کے رزق میں اضافے کا باعث بن جائے ، اور یہ چکر یونہی چلتا رہے گا۔