ناصر منصور
ملائیت نظری کٹرپن اور جامد ذہنیت کی علامت ہے جسے جب چاہا لیفٹ پر چپکا دیا. ملائیت یہ بھی ہے کہ پہلے من مانا نتیجہ نکال لیا اور پھر اس کے لیے شواہد اکٹھا کرنا شروع کر دیں. دایاں بازو، فاشسٹ، مذہبی گروہ اور نام نہاد لبرلز بظاہر متضاد الخیال دکھائی دیتے ہیں لیکن لیفٹ اور اشتراکی تحریک سے نفرت میں یکساں سوچ اور ہم آواز ہیں. اشتراکی تحریک سے بڑھ کر کس نے خود تنقیدی کی ہے، مارکس سے لیکر لینن، ماؤ کون ہے جو خود کمیونسٹوں کی تنقید کی زد میں نہ آیا ہو۔
گو چی گویرا جدید سیاسی مزاحمتی تحاریک کی علامت بن چکا ہے لیکن ان پر بھی لیفٹ کی تنقید اتم موجود ہے جو ان کی معروض پر موضوعی سوچ کو فوقیت دینے کی وجہ سے ہوئی. کیوبا میں میزائل بحران پر چی کے طرزِ عمل پر تنقید موجود ہے، کانگو میں محاذ کھولنے اور بولیویا کے آخری معرکہ پر ان سے اختلاف رقم ہے ، اس لیے کسی کا یہ کہنا کہ لیفٹ نے چی کے گرد کوئی تقدس کا کوئی ھالہ کھینچ رکھا ہے نا مناسب ہے۔
وجاہت مسعود نے حقائق کو نظری خواہش کے تحت مسخ کیا ہے اور وہ یہ واردات تسلسل سے ڈال رہے ہیں. چی گویرا بہادری، استقامت اور مقصد سے لگن کا استعارہ ہے تو انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چی تو بزدل تھا اور موت سامنے دیکھ کر گڑگڑا کر قاتلوں سے زندگی کی بھیک مانگتا رہا. ان کے نزدیک سی ائی اے کا کہا سچ ٹہرا، مقتول ظالم اور قاتل جرم سے مبرا ٹہرے. کل حسن ناصر، نذیر عباسی جیسے اشتراکی شہداء کے قاتل سپاہیوں کے بیانات اور ریاستی نقطہ نظر کو اعتبار بخشنے کے لیے یہی قلم اور کالم حاضر ہو گا۔
یہی کچھ وہ فیڈل کاسترو کے انتقال کے موقع پر کر گزرے ہیں انہوں نے رقم کیا کہ مرحوم کیوبن صدر کے تینتیس ھزار خواتین سے جنسی تعلقات تھے اور دروغ گوئی کو سچ کی سند بخشنے کے لیے ایک فیک تصویر بھی ساتھ ہی چپکا دی۔
ان کی مسلسل کوشش ہے کہ اشتراکی تحریک کو فاشزم سے لف کر دیا جایے اور انقلابی رہنماؤں کو ہٹلر اور مسولینی کی صف میں شمار کیا جایے. کچھ بعید نہیں کہ اب یہ جنرل ڈائر اور برطانوی نوآبادیاتی تشدد اور بھگت سنگھ کے عمل کو ایک ہی سطح پر دیکھیں گے، ویت نام میں عوامی مزاحمت کو امریکی جارحیت اتنا ہی قابل مذمت ٹہرائیں ، ہٹلر اور مسولینی کے خلاف مسلح بعاوت کرتے باغیوں کو بھی فاشسٹ جتھوں سے تعبیر کریں اور بلوچ اور بنگالی مزاحمت کو ریاستی دہشت کے ہم پلہ قرار دیں گے۔
وہ محکوموں کی صدیوں پر محیط مزاحمت پر خطِ تنسیخ پھیرے جارہے ہیں اور اسے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کی بات کر رہے ہیں۔
یہ گتکا نہیں کہ لفظوں کی لٹھ گھمانے سے تماشائیوں کا دل لبھایا جایے، یہ انسانی مزاحمت کی تاریخ ہے اسے لفظوں کی جادوگری سے غائب نہیں جا سکتا۔