Baam-e-Jahan

تاریخ کی عظیم فیمینسٹ عورتیں

زاہدہ حنا


بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر اور پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ یہ کسی اور نے کیوں لکھ دیں، یہ تو مجھے لکھنی تھیں۔ نعیم مرزا کی ’’ تاریخ کی عظیم فیمنسٹ عورتیں ‘‘ دیکھ کر اور پڑھ کر یہی جی چاہا۔ نعیم ایک دانشور انسان ہیں، وہ پڑھتے ہیں۔

اس موضوع کے بارے میں سوچتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے۔ ہمارے یہاں عورتوں کے دکھوں کے بارے میں جاننے، انھیں سوچنے، سمجھنے اور تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے نعیم مرزا نے اپنی آنکھوں کا تیل جلایا ہے اور ہمارے لیے ایک اہم اور منفرد کتاب تحریر کی ہے۔

اس کتاب میں انھوں نے ہماری نئی نسل کی تربیت کی ہے اور اسے اس اہم موضوع کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے۔ اس کتاب کا تعارف ہمارے عہد کی اہم شاعرہ اور منفرد کالم نگار کشور ناہید نے لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ:
افلاطون ہو کہ سقراط، ابن رشد کہ منصور ، سب نے سچ بولنے کی سزا پائی۔ تاریخ اور تحقیق میں ان کی نظری جہات پر بہت زاویوں سے بات ہوتی ہے۔ معاشرے میں ایک صنف اور ہے، جسے عورت کہتے ہیں، جس کے بطن سے یہ سب پیدا ہوئے۔ مرکزیت میں سارے شعور اور لاشعوری محاکات آئے، مگر ذکر اس کا نہیں، جو آدم کو زمین پر لائی اور زندگی کے پہیے کو گھمانے کے لیے دوسرا پہیہ بنی اور نسل آدم کو ملکوں، شہروں، جنگلوں اور باغوں میں محنت کرنے اور مل کے کام کرنے کا ہنر سکھایا۔ سب حوالے محدب شیشے سے بھی دیکھو ، عورت دیوی کی شکل میں ، پاؤں کے نیچے جنت کے خواب لیے جیتی اور مرتی رہی۔

مغلوں ، تاتاریوں ، ساسانیوں اور یونانیوں کی تاریخ میں عورت کہیں کہیں حکمرانی کرتی تو دکھائی دیتی لیکن اگر عورت ، اپنی سوچ ، اپنی انفرادیت اور وجود کو منوانے، شعوری آزادی اور عزت کے لیے جب خود اٹھ کھڑی ہوئی تو آپ پڑھیں گے کہ روشن دماغی کے چہرے کو بے نقاب دیکھتے ہوئے، ساری زبانوں کی لغت ، معاشرت اور تہذیب میں تبدیلی کا احساس مشین کے اسی دوسرے پہیے نے دلایا کہ ’’ دونوں ایک دوسرے کے لباس ہیں۔‘‘ نفسیات بدلنے سے معاشرتی رویوں کی تبدیلی کی کہانی یوں تو شہر زاد، خنسا کریم، جون آف آرک کی داستانوں کے طلسماتی کہانیوں کے پردے کو چاک کرکے عورتوں کی اپنے وجود کو منوانے کی جدوجہد ہے۔ اس کی تاریخی تفسیر کو ہمارے محقق اور عورتوں کو بطور رفیق محسوس کرنے کے طویل مراحل کو نعیم مرزا نے، کتابی شکل دی ہے۔

نعیم مرزا بنیادی طور پر کومیٹڈ دانشور ہیں، جنھوں نے سالہا سال کی دقیق محنت کو خوبصورت اور دلچسپ حوالوں سے فیمنسٹ تاریخ کو اور جاندار کیا ہے۔ ہر زاویے سے تاریخ میں عورت کی جدوجہد کو بیان کرنے والی یہ کتاب، شاید اردو میں پہلی ہے، آخری نہیں۔ اس میں ماضی کی نامی گرامی عورتوں کی جدوجہد اور ان کے نظریات کو ماضی، حال اور مستقبل کے تناظر میں ایک ساتھ دیکھا گیا ہے۔ نعیم مرزا نے فیمنزم اور اردو ادب کو ایک عمدہ کتاب دی ہے۔

عورتوں کی تحریکوں کے پس منظر میں یہ کتاب تقریباً چھ صدیوں پر پھیلے کئی زمانوں کی داستان ہے۔ اس میں یورپی نشاۃ ثانیہ کی آمد ، انقلاب فرانس کی طغیانی ، امریکا میں غلامی کا گھناؤنا پن ، ہندوستان میں برہمنی راج اور ذات پات کا جبر ، برطانوی نوآبادیاتی کلچر کی منافقت مسلم معاشرت میں پردہ کلچر اور قدامت پسندی کی گھٹن، مارکسزم کی ابتدا اور فروغ اور برطانیہ ، جرمنی اور امریکا میں حکمران اشرافیہ کی عیارانہ چالوں کے پس منظر میں عورتوں کی تحریکوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

کتاب کے شروع میں کہیں سیمون دی بوار کہہ رہی ہے کہ ’’کرسٹین دی پیزاں تاریخ میں پہلی عورت تھی جس نے اپنی جنس کے دفاع میں قلم اٹھایا ‘‘ تو کہیں انقلاب فرانس میں ہزاروں عورتیں روٹی کے خشک ٹکڑے پکڑے بادشاہ کے محل کی طرف مارچ کر رہی ہیں۔ اولیمپ نے عورتوں کا اعلان نامہ تحریر کیا تو اسے پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

یہ وہی اولیمپ ہے جس نے 1791 میں کہا تھا کہ ’’ اگر عورت کو پھانسی پر چڑھایا جاسکتا ہے تو اسے اسپیکر کے روسٹرم سے بولنے کا حق بھی ملنا چاہیے۔‘‘ پھر ایک باب میں میری وولسٹن کرافٹ اپنے دلائل سے روسو کو یہ کہتے ہوئے للکار رہی ہے کہ ’’ ایک مطلق اور غیر متنازعہ حاکمیت لگتا ہے کہیں نہ کہیں اپنا وجود بہر صورت رکھتی ہے، مگر کیا یہ دلیل کا براہ راست اور مخصوص استحصال نہیں کہ بنی نوع انسان کے حقوق آدم کے بعد مرد کو منتقل کردیے گئے ہیں۔‘‘ کہیں عورت قلم کاروں کے لیے صرف ’’ ایک کمرے‘‘ کی خواہش کرنے والی ورجینیا وولف انارکسٹ ایما گولڈن مین اور فیمنسٹ مورخین گرڈالرٹر، جولیٹ میچل، اوما چکرورتی، ڈاکٹر امرتیا سین اور ہماری زاہدہ حنا پرجوش الفاظ میں ان شخصیات اور فیمنسٹ تحریکوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ان کی باتوں سے فیمنزم پر ایمان تازہ ہو گیا۔

کشور آج سے نہیں دہائیوں سے پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کی عورتوں کا مقدمہ لڑ رہی ہیں۔ ان کا حق تھا کہ وہ نعیم مرزا کی اس کتاب کا سرنامہ، اس کا پیش لفظ لکھیں۔ انھوں نے ستی اور بیواؤں کے سر مونڈنے جیسی انسان کش رسموں کے بارے میں لکھا۔ وہ بنگلہ ادیب رقیہ حسین کے بارے میں لکھتی ہیں جنھوں نے 1905 میں ’’سلطان کا خواب‘‘ لکھ کر اور ایک فیمنسٹ یوٹوپیا تخلیق کرکے اپنے پڑھنے والوں کو حیران کردیا تھا۔ آج ہمارے یہاں دعا زہرا کے نام پر شادی کی عمر کے مسائل اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسی کتاب میں عورت کے نام پر ہمیں حیرتوں کے سمندر ملتے ہیں۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے