139

ہیڈکوارٹر بونی اور پانی کے مسائل

ذولفقارعلی شاہ زولفی


سات قلزم موجزن چاروں طرف
اور ہمارے بخت میں شبنم نہیں

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر بننے کے بعد بونی پر آبادی کا بوجھ اور بڑھ گیا ہے جس کی وجہ بیرونی علاقوں سے لوگوں کا بہتر سہولیات کے لئے اس علاقے کا رخ کرنا ہے. 2017 کی مردم شماری کے مطابق صرف بونی قصبے کی آ بادی 8552 ہے اور یہاں گھرانوں کی تعداد 1263 ہے۔ یہ چونکہ آ ج سے تقریباً 5 سال پہلے کی بات ہے لہذا اب تک آبادی میں مزید اضافہ ہوا ہوگا۔ اور ایک اندازے کے مطابق یہاں کے گھرانوں کی تعداد اب 1800 کے لگ بھگ ہے۔ کسی بھی علاقے میں آبادی میں اضافہ اگر ایک زاویے سے اچھی بات ہے۔ تاہم اگر اس اضافے کے ساتھ بہتر منصوبہ بندی نہ کی جائے تو یہ اضافہ اپنے ساتھ بہت سے مسائل لیکر آ تا ہے۔ پاکستان کے تمام شہروں ماسوائے چند مٹھی بھر شہروں کے ابادی کے اضافے نے کئی مسایل کو جنم دیا ہے۔ ان مسائل میں چند ایک یہ ہیں۔ ماحولیاتی آ لودگی، نکاسی آ ب کا مسئلہ، جرائم میں اضافہ، سماجی مسائل اور بغیر پلاننگ اور نقشے کے بغیر مکانات کی تعمیر وغیرہ وغیرہ۔ زیر نظر تحریر کا بنیادی مقصد ان مسائل خصوصاً پانی کے بڑھتے ہوئے مسئلے کی جانب لوگوں کی توجہ دلانا ہے۔ اسکے علاؤہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے کے لئے عوامی رائے لینا بھی ہے۔ آ ج کی یہ تحریر صرف اس علاقے میں پانی کے مسئلے کو زیر بحث لانے کے ایک حقیر سی کاوش ہے۔ دوسرے مسائل کو کسی اور دن زیب قرطاس لانے کی کوشش کی جائے گی۔
موجودہ وقت میں بونی کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کا ہے۔ کہنے کو اس علاقے میں مختلف ناموں سے پانی کی سپلائی کی کئی سکیمیں کام کرتی ہیں لیکن حقیقتاً ایک منصوبے کے علاؤہ تمام لائنیں کسی کام کے نہیں۔ 2010 کے بعد جب سے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت آ غا خان ایجنسی فار ہیبیٹاٹ کی جانب سے دئے گئے پانی کے منصوبے سے پینے کا صاف پانی کا منصوبہ کامیاب بنایا تب سے پینے کے پانی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوگیا۔ لیکن اس منصوبے نے بہت مختصر مدت میں کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگلے دو سالوں میں پانی کا وہی مسئلہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے جو 2010 سے پہلے تھا۔

ایک بات ہمیں زہن میں رکھنا چاہئے کہ بونی میں اب تک جتنے بھی پانی کے منصوبے لاے گئے وہ صرف پینے کی ضرورت کو مدنظر رکھا گیا۔ جس کے لئے بہت کم مقدار میں پانی کافی ہوتا ہے۔ لیکن پانی کی ضروریات اس سے کئ زیادہ ہیں۔ پانی کے استعمال اور اس کی مقدار دیکھنے کے لئے پانچ چھ افراد پر مشتمل ایک خاندان میں اس پانی کی مقدار ناپ لیں۔ جو وہ پینے کے علاؤہ دوسرے کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلآ برتن اور کپڑے دھونے، واش رومز اور کچن وغیرہ ۔ باغات اور کھیتوں کا سیرابی پانی اس میں شامل نہیں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایک چھوٹے گھر کے اندر کم سے کم ایک ہزار لیٹر پانی روزانہ کی بنیاد پراستعمال ہوتا ہے۔
یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ بونی میں پانی اب صرف پینے کی حد تک محدود نہیں۔ کمرشل سطح پر پانی کے اور زیادہ استعمالات ہیں۔ بونی میں اس وقت دو بڑے ہسپتال، کئ سکولز اور کالجز، بنکز، ہوٹلز ، ریستوران اور گیسٹ ہاؤسز موجود ہیں۔ کمرشل لیول پر آپ ڈرائ کلیننگ اور لانڈریز بھی کھل رہے ہیں۔ یہاں مستقل گھرانوں کے علاؤہ سینکڑوں ایسے افراد ہیں جو کرایے کے مکانات میں قیام پزیر ہیں یا ملازمتوں اور دوسرے کاموں کے سلسلے میں یہاں مقیم ہیں۔ تو ایسی صورت حال ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس طرح کی صورت حال میں ہم پانی کے اس سنگین مسئلے کو کیسے حل کریں۔
اس مسئلے کا سادہ حل کسی ایک ادارے یا فرد کے بس کی بات نہیں۔ لیکن اس میں سب سے اہم کردار حکومتی اداروں کا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی شراکت بہت ضروری ہے۔ یہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں کمیونٹی کی شراکت سے بہت سے بڑے منصوبے کامیاب ہوئے ہیں۔
ماضی میں یہاں کی کمیونٹی کے غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون کی بہترین مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ کہ جب اس علاقے میں لوگوں نے ان اداروں کے ساتھ بشانہ چل کر اپنے لئے بہترین سکول، صحت کے ادارے، عبادت خانے، اور پانی کے منصوبوں کو کامیابی سے ہم کنار کئے۔ اسی طرح کے دوسرے کاموں میں یہی تعاون اگر ہم اپنے حکومتی اداروں کے ساتھ بھی کریں تو اس طرح کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے لوکل گورنمنٹ اور دوسرے اداروں کو ملکر ایک جامع منصوبہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ اگلے سالوں میں پینے کے پانی کا یہ مسئلہ مزید سنگین ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
لوکل گورنمنٹ کے عوامی نمائندے اس سلسلے میں لوگوں کی رہنمائ کر سکتے ہیں۔ ایک تجویز میرے زہن میں یہ آ ئ ہے کہ بونی گول، آ ؤی گول اور میراگرام گول سے کوئ ایسا منصوبہ بونی کے لئے رکھا جاے۔ تاکہ اگلے پچاس ساٹھ سالوں تک پانی کا یہ مسئلہ دوبارہ سر نہ اٹھائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں