Baam-e-Jahan

فہمیدہ ریاض، طالبان اور تنہائی

اقبال خورشید


وہ میرے لیے گیبرئیل گارسیا مارکیز کے کسی کردار کے مانند تھیں۔ ”تنہائی کے سو سال“ کے کسی کردار کے مانند۔
کردار، جوایک عرصے خوابیدہ رہتا ہے، اس کے اردگرد واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، مگروہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اور پھر اچانک وہ پوری قوت سے لوٹ آتا ہے، اور ہمیں یوں لگتا ہے کہ وہی اِس ناول کا اہم ترین کردار تھا۔
اب جب کہ فہمیدہ ریاض گزر گئیں، انھوں نے میرے لیے مارکیز کے کسی کردار کے مانند، کرنل ارلیانو بائندا کے مانند، کہانی کے مرکزی کردار کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
سب ان سے جڑیں یادیں بانٹ رہے ہیں۔ ان کا تخلیق کردہ ادب، ان کی جدوجہد، ان کی باتیں۔ ان کی تصاویر۔ یا پھر ان کی جنازے میں ادیبوں کی عدم شرکت کا گریہ۔
یاد ہے، پہلی بار کراچی ایئرپورٹ پر ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ ملا، تو اُسی تجربہ سے گزرا، جس سے اُس سہ پہر گزرا تھا، جب کراچی لٹریچر فیسٹول میں اچانک روشنی ہوگئی، اور ہم نے دیکھا کہ جسٹس رانا بھگوان داس سامنے سے آرہے ہیں۔ میں اور رانا محمد آصف انھیں دیکھ کر احتراماً خاموش ہوگئے، اور ان کے گزرنے کا انتظار کرتے رہے۔
اب سن یاد نہیں، پی پی کا دور تھا۔ ایکسپریس کی دوسری عالمی اردو کانفرنس تھی۔ کراچی سے ادیبوں کا وفود لاہور جارہا تھا۔ احفاظ الرحمان صاحب قیادت کر رہے تھے۔ انھوں نے میری ڈیوٹی لگائی کہ جو ادیب ایئرپورٹ پہنچے، اُس کی بورڈنگ کرواتا جاؤں۔ اور یوں میں نے فہمیدہ ریاض کو اتنے قریب سے دیکھا، جیسے رانا بھگوان داس کو دیکھا تھا، اور اسی تجربے سے گزرے، جیسے اُس سہ پہر گزرا تھا۔
میری توقعات کے برعکس، وہ حیران کن حد سادہ نکلیں۔ بیٹھتے ہی مجھ سے پوچھنے لگیں : ”بیٹا، یہ بتاؤ، کیا یہ طالبان ہمیں بھی مار دیں گے؟ “
یہ وہ زمانہ تھا، جو خودکش دھماکے روز ہی سوختگی کی فصل بوتے، سوات ہمارے ہاتھ سے نکل چکا تھا، اور شہروں میں خوف دوڑ رہا تھا۔
ایک قنوطیت پسند کے مانند، جو میں ہوں، میں نے کہا: ”بالکل، وہ یہاں (کراچی) تو آچکے ہیں۔ “
”مگر مجھے لگتا ہے کہ۔ ۔ ۔ “ اُن کا لہجہ نہ تو مفکرانہ تھا، نہ ہی فلسفیانہ۔ ”سندھ کے لوگ ضرور مزاحمت کریں گے۔ یہ لوگ آرٹ اور کلچرل سے جڑے ہوئے ہیں۔ “
ہم جانتے ہیں کہ وہ سندھ دھرتی کی دھڑکن سے ہم آہنگ تھیں۔ وہ ہم جیسے ”اہل کراچی“ کی طرح نہیں تھیں، جو ساحلی شہر کو سندھ سے الگ ایک دنیا خیال کرتے ہیں۔ جو ”اپنوں“ کے سیاسی دھوکے میں مارے گئے۔
کانفرنس والے روز راہ داری سے گزرتے ہوئے میں نے انھیں اورکشور ناہید کو دیکھا۔ اور احتراماً اپنی خودکلامی کو موقوف کیا۔ وہ اپنے خاندان کی کسی گیارہ بارہ سالہ بچی کو کشور ناہید سے متعارف کروا رہی تھیں۔ اور کشور ناہید نے محبت سے بچی کو خود سے لگا رکھا تھا، اور کہہ رہی تھی: ”ارے بھئی، یہ تو اب میرے برابر ہوگئی“۔
کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، اور ایک بچی۔ وہ ایک مبہوت کر دینے والا منظر تھا۔
میں فہمیدہ ریاض کا قاری نہیں رہا۔ ان معنوں میں نہیں، جیسے میں مارکیز یا اورحان کو پڑھتا ہوں، یا اسد محمد خاں اور تارڑ کو۔ البتہ انھیں میں میلوں، کانفرنسوں میں دیکھتا رہا، سناتا رہا، سر جھکا کر سلام کرتا رہا، اور وہ اُسی سادگی سے، جس سے انھوں نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا طالبان ہمیں بھی مار دیں گے؟ جواب دیتی رہیں۔
ان کے اردگرد تنہائی اور اداسی کی ایک قدیم لہر سی محسوس ہوتی تھی۔ ان کے ہمہ عصر اکثر یہ بات کہتے کہ وہ بیٹے کی موت کے سانحے سے کبھی نہیں نکل سکیں۔
جب کمال فن ایوارڈ انھیں دینے کا اعلان ہوا، تو میں انٹرویو کرنے ان کے دفتر پہنچا۔ وہ سمجھیں کہ میں ایکسپریس ٹربیون سے ہوں۔ میرے اردو میں پوچھے جانے والے سوالات کا انگریزی میں جواب دیتی رہیں۔ اشاعت سے قبل جب انٹرویو کا اسکرپٹ انھیں دکھایا، تو کہنے لگیں : ”ارے، تم نے بتایا کیوں نہیں کہ تم اردو اخبار سے ہو؟ “
میں نے دل میں سوچا، ”کیا یہ بات میرے چہرے پر لکھی ہوئی نہیں ہے؟ “
طارق روڈ کے علاقے میں، ایک پورشن میں ان کی رہائش تھی۔ کمرے میں روشنی کچھ کم تھی۔ وہ سگریٹ پی چکی تھیں۔ میں نے کہا کہ آپ کی نوجوانی کی ایک تصویر ہے، جس میں آپ ”داس کیپٹل“ پڑھ رہی ہیں، اسے ہم انٹرویو میں برتنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے حیرت کا اظہار کیا، اور کہنے لگیں کہ انھیں اپنی ایسی کسی تصویر کی خبر نہیں۔ جب میں نے سیل فون پر انھیں وہ تصویر دکھائی، تو چہرے پر ایک بھوی بسری مسکراہٹ ظاہر ہوئی۔
وہ سوشل میڈیا پر خاصی متحرک تھیں۔ ان کے اسٹیٹس کبھی کبھی اس طبقے کے لیے بھی ہضم کرنے دشوار ہوجاتے، جن کی وہ نمایندہ تصور کی جاتی تھیں۔ البتہ میرے نزدیک وہ اسٹیٹس کسی اسکول آف تھاٹ کے نہیں، ان کی اپنی فکر کے ترجمان تھے۔
ایک عرصے سے بیمار تھیں۔ سوشل میڈیا پر متحرک نہ رہیں۔ رابطے سکڑ گئے۔ خال خال ہی کسی تقریب میں دکھائی دیتیں۔ چند ماہ پہلے انھیں فون کیا، تو وہ اتنا ہی کہہ پائیں، ”بیٹا، ابھی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، بعد میں بات کروں گی۔ “
اور پھر وہ منظر سے غائب ہوگئیں۔ اور واقعات رونما ہوتے رہے۔ بیانیہ آگے بڑھتا رہا۔ ہم ناول کے دیگر کرداروں میں الجھ گئے۔
اور تب مارکیز کے کسی کردار کے مانند، فہمیدہ ریاض واپس آئیں، اپنی موت کا اعلان کردیا۔
اور تب ہم جانا کہ وہ تو ناول کا سب سے اہم کردار تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے