Baam-e-Jahan

خواجہ رفیق

شاہ محمد مری


اکثر و بیشتر تین بوڑھے، شور مچاتے، برا بھلا کہتے قہقہے لگاتے لاہور میں میرے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ۔ یہ تینوں’’ جڑواں‘‘ سنجیدہ ترین سیاست کرتے ہوئے بھی بہت ہی ہنس مکھ ، کھلے ڈلے ، تصنع بناوٹ سے پاک، اور ،یار باش لوگ تھے ۔ خواجہ رفیق اور ملک اسلم لاہور ی تھے اور وہ ہاٹ لائن کے ذریعے اپنے تیسرے جڑواں، میاں محمود فیصل آبادی سے رابطے میں رہتے تھے۔ یہ لوگ خدا سے ملن اکٹھ کا کوئی موقع ڈھونڈتے ۔ خصوصاً’’ ویک اینڈ‘‘ تو اکٹھا ہی مناتے ۔ مجھ ’’چوتھے چراغ ‘‘سے ان کی چوکڑی والا کورم پورا ہوجاتا ۔
میاں محمود اپنی سفید ٹیوٹا کار میں فیصل آباد سے لاہور پہنچتا تو ہم تینوں کو اکٹھا کر کے اپنی گاڑی میں گھسیٹ ڈالتا اور تب پورا شہر ’’ہمارا ‘‘بن جاتا ۔تین دن تک شہر کے سارے چائنیز ہوٹل، چوبرجی میں خان بابا کا ہوٹل ، میکلوڈاور مال کے نکڑ کا ہوٹل، شیزان وغیرہ ۔۔۔ ان ہوٹلوں میں ہم سب کالیڈرسی آر اسلم بھی ساتھ ہوتا ۔ اس کی موجودگی میں توسیاست ، فلسفہ ہی چلتا ۔ اور سی آر ہی بولتا رہتا ۔ اس کی تکریم کے دائرے کے اندر ہی ہم بات کرسکتے تھے ۔ مگر اسے گھر پہنچا کر تو جیسے کانجی ہاؤس سے نکلا بھوکا جانور آزاد ہو جائے ۔ ہم ہر طرح کی بکواسیات بولتے ۔ یہی فلک شگاف قہقہے ہمارے اگلے پانچ دنوں کا توشہ بھی ہوتے ۔ میاں محمود کی ہیڈ ماسٹری صرف اُسی وقت استعمال ہوتی ، جب ہم سوشلزم کی بنیاد کی کہیں وائلیشین بول پڑتے ۔ اور ایسی صورت میں میاں ’’ بکواس نہ کر ، اوئے بلوچی آ‘‘ ہی کہتا ۔ ہم پھر ڈسپلن میں آجاتے۔ لطیفے ‘ہنسی مذاق ، ضرب الامثال ، واقعات، خاکے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے بوراور سپاٹ زندگانی تو دیکھی ہی نہیں۔
ہم بزرگ و بیمار دوستوں کے ہاں جاتے، کتاب گھروں کے چکر لگاتے، پارٹی آفس میں بیٹھتے اور سیاست پر بحثیں کرتے۔
میاں محمود غیر شادی شدہ بوڑھا تھا، اس لئے اس پر مذاق تو اُسی عنوان سے ہوتا ۔ لاہور ،اور شیخوپورہ پہ سارے موجود تصوراتی طنز ملک اسلم سہتا ۔ خواجہ رفیق امر تسر ، لدھیانے اور گوالمنڈی لاہور سے متعلق مزاح کا شکار بن جاتا اور میں توجمرات بنا زاہدان و گوادر سے لے کر جھنگ تک کے بلوچوں کی نمائندگی میں طنز کے رمی سہتا ۔ کوئی غیبت نہیں ، کوئی سازش نہیں ۔ صاف دل ، صاف نیت اور بے ضرر قہقہے ۔ میں سب پر حاوی رہتا ماسوائے خواجہ رفیق کے۔ میاں صاحب تو جب بہت ہی نشانہ بنتا توباقاعدہ ایک دوشیزہ کی صورت شرمائے سے‘ آنکھوں میں قہقہوں کی وجہ سے پانی بھرے ’’ بے ایماناں‘‘،’’کمینہ‘‘،’’ بلوچی بادشاہ ‘‘ ،یا ’’لالے ‘‘ کہہ کر گویا پناہ مانگتا ۔ ملک اسلم خواہ مذاق میں زچ ہوتا ہو یا ’’لیڈر‘‘ کی جھڑکی پہ خاموش احتجاج کرتا ہو تو اس طرح کی مسکان مسکرا دیتا ہے جس کے لئے میری محبوبہ مجھ سے کہا کرتی تھی: ’’ تم ہنس رہے ہو یا رو رہے ہو؟‘‘۔۔۔۔۔
مگر خواجہ صاحب قہقہہ مار کر جوابی حملہ کرتا ، ایسا کہ بندہ پانی تک نہ مانگ سکے ۔یہ ’’حریسہ خور‘‘ لمبا تڑنگا امر تسری بہت زبردست چوٹ کر جاتا۔ ظاہر ہے اردو ایسے موقع پر ساتھ چھوڑ دیتی ہے ۔ لہٰذا خواجہ پنجابی میں فقرہ چست کرتا ۔ اور د وتین زور دار حملوں میں جب میں زچ ہو جاتا اور مکمل طورپر ہتھیار ڈال دیتا تو یہ کہہ کر گویا جنگ بندی کی اپیل کرتا ’’خواجہ تمہارا منہ خدا کرے ، جنگل بیاباں کی طرف ہو جائے کہ انسان تمہاری زبان کے کوڑے سہہ نہیں سکتا ‘‘۔
مارچ 2003 کو خواجہ رفیق نے اپنا منہ بیاباں کی طرف موڑ ہی دیا ۔ رات کسی پہر ملتان کے ملک محمدعلی بھارا نے فون کر کے خواجہ صاحب کے انتقال کی خبر سنائی اور صبح فلائیٹ کی تلاش اور سیٹ ملنے کی کامیابی کے بعد سفر کی تیاریاں ہنگامی صورتحال میں پوری کر کے اپنے 60 شش ماہوں پہ مشتمل رفیق کے جنازے میں صرف ساٹھ منٹ میں پہنچ گیا ۔ جہاں خواجہ صاحب کا ایک اور یارِ غار ہیرا پہلوان نے دیکھا تو بزرگ سنی کی آنکھوں میں آنسو لئے آگے بڑھتے ہوئے دھائی کے انداز میں ’’او میرا بلوچستان آیائی ‘‘ چیخ کر مجھے گلے لگا لیا اور موجود سارے احباب نے سینکڑوں آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا خواجہ جی کو:۔۔۔۔۔۔۔۔
By the rivers of Babylon there we sat down and wept
یہ آنسو ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں اس نے خود ہی تو کاشت کئے تھے۔ اسی دن کے لئے اسی ساعت کے لئے ۔ یادیں اور آنسو ، محبت اور اشک‘ وابستگی اور آنکھ کا نم۔۔۔خواجہ رفیق اور شاہ محمد ۔ انسان کی اشرف المخلوقاتی خصوصیات بہت ہی امتیازی ہوتی ہیں !!۔
خواجہ محمد رفیق 1924 کوامر تسر میں پید اہوا ۔ اور وہیں میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ امر تسر میں بھی اُس کی اولین زندگانی بہت بھر پور تھی۔ اُدھر بھی وہ ’’چہار یار ‘‘ تھے ۔۔۔۔خواجہ رفیق ، نازش کشمیری ، مفتی عبید اللہ‘ اور مولوی رحمان ۔ یہ سب کے سب سیاست کرتے تھے مگر سب الگ الگ سیاست سے وابستہ تھے ۔ مفتی کا خاندان احرار سے متعلق تھا ، خواجہ رفیق مسلم لیگی تھا اور مولوی رحمن کا والدکانگریسی تھا ۔ ان دنوں سکول کالج ہوں یا گلی محلہ ہر آدمی آزادی کی جنگ میں کسی نہ کسی حوالے سے شریک تھا ۔ کوئی قید کوئی پابندی نہ تھی بلکہ رضا کارانہ طور پر خود بخود ہی ہر آدمی آزادی کا سپاہی بنا ہوا تھا ۔ انگریز سامراج آج کے سامراج ہی کی طرح اُس وقت بھی بہت ہوشیار ، چالاک اور مکار تھا ۔ اس نے آزادی کی جنگ کو اپنے خلاف رہنے نہ دیا بلکہ مذاہب کے نام پر اپنے غلاموں کو آپسی جنگ میں لگا دیا ۔ہندو مسلم فسادات ، سکھ مسلم فسادات ۔۔۔ پورا ہندوستان یہی کر رہا تھا ۔ مارچ 1947 میں یہ فسادات باقاعدہ شروع ہو چکے تھے۔ باقاعدہ گلی کی لڑائی ، لوٹ مار ، قتل و غارت ۔۔۔ خواجہ رفیق لنگوٹی کس کرجنگ کے عین درمیان میں تھا۔ مسلمان جو تھا! مسلم لیگی جو تھا! اس لیے حتماً مسلمانوں کی طرف سے امر تسر کی گلیوں میں فسادات میں شریک تھا۔
مولوی رحمان اس عرصے میں پونا میں رہا ۔ وہاں اس کی ملاقات ارونا آصف علی والی انقلابی پارٹی کے لوگوں سے ہوئی ۔مولوی پونا میں گاندھی کے آشرم میں بھی موجود ہوتا ۔ مسلم لیگ کا جلسہ بھی جانے نہ دیتا، کانگریس اور ریوولیوشنری پارٹی کے جلسوں میں بھی جاتا تھا ۔
اور پھر ’’ کچھ‘‘ کمیونسٹوں نے اسے گھیر لیا ۔دل و دماغ میں جب مسلم لیگ ، کانگریس ، کمیونسٹ سب کچھ خلط ملط ہو چکا ہو توپلّہ بہر حال کمیونسٹوں کا بھار ی رہے گا ۔ الگ ہو کر کمیونسٹ پارٹی سے رابطہ کیا اُسی سے ’’ ہڈ پروشی‘‘ کرلی۔ (بلوچی رسم جب ایک قبیلے کا فرد سخت شرائط میں دوسرے قبیلے شامل کیا جاتا ہے ) ۔ نئی پارٹی کی طرف سے اُسے مسلم لیگ میں رہنے کی ہدایت کے اشارے ملے ۔ کمیونسٹوں نے اسے وہیں پونا میں ایک سٹڈی سرکل گروپ میں ڈال دیا ۔ 1947 میں لاہور واپسی پر اس کی ملاقات اپنے بچپن کے دوستوں سے ہوئی ۔ وہ توسب مسلم لیگ کی سیاست کررہے تھے ۔ شیخ ظفر ، سردار شوکت حیات اور ملک غلام نبی اس زمانے میں مسلم لیگ کے لاہوری لیڈر تھے ۔۔۔ کمیونسٹ پارٹی سے روابط کی بناپر ان لوگوں کو مسلم لیگی لیڈروں کی اصلیت معلوم ہو گئی تھی کہ کون کیا گروپنگ کر رہا ہے ۔کونسا لیڈر کس لابی سے متعلق ہے ۔
بہر حال یہ چوکڑی کمیونسٹ پارٹی کے قریب آگئی ۔ اور پارٹی نے ان کے سٹڈی سرکل لینے شروع کر دیئے ۔ پارٹی کے سینئر لوگ ہی ان کے سرکل لیتے تھے کہ ان کو قابو کرنا کارے دارد تھی ۔ حتیٰ کہ دادا فیروز الدین منصور اپنی انڈر گراؤنڈی کی حالت میں انہیں اپنے پاس بلوا کرانہیں مارکسزم پڑھاتا تھا ۔ سی آر اسلم انہیں پڑھاتاتھا۔(پاکستان کا کونسا کمیونسٹ ہے جسے سی آر اسلم نے نہیں پڑھایا!!) ۔کامریڈ افضل ان کی کلاسیں لیتا تھا ۔ مگر ایرک سپرین ان کا مستقل ٹیچر تھا ۔ بڑا سخت استاد تھا وہ ۔ کاغذ قلم پکڑو ا دیتا ، اگلے دن سوال و جواب کرتا۔
پھرلاہور میں پروگریسو رائٹرز ایسو سی ایشن کا ہفتہ وار سٹڈی سرکل ہوتا تھا ۔ فارمیٹ یہ تھی کہ ایک افسانہ پڑھا جاتا ، ایک نظم یا غزل پیش کی جاتی اور ایک تنقیدی مضمون ہوتا تھا ۔ پھر ان تخلیقات پر بحث ہوتی ۔ یہ دوست وہاں ریگولر جاتے تھے ۔ اُس زمانے میں احمد راہی ، عارف عبدالمتین ، حمیداختر ، اوراحمدندیم قاسمی جیسے اچھے پروگریسو رائٹرز آتے رہتے تھے ۔ یہ اجلاس کبھی دیال سنگھ لابئریر ی میں ہوتے تھے ،اور کبھی نکلسن روڈ پر جہاں طاہرہ مظہر علی رہتی تھی‘ اس کے نیچے گیراج میں ۔
اسی زمانے میں پروگریسو رائٹرز کی کانفرنس ہوئی اوپن ایر تھیٹر میں ۔ اس میں ان لوگوں نے دلچسپی لی ، خوب کام کیا اور تین دن تک چوٹی کے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کو سنا ۔ اس طرح ان ’’چہاریاروں‘‘ کی سوچ پروان چڑھی ، شعور بڑھا ۔
اسی زمانے میں لیاقت علی ملک کی کشتی امریکہ کی طرف موڑ کرپورے پاکستان کا بیڑہ غرق کر چکا تھا اور کمیونسٹ پارٹی نے سخت ترین احتجاج کیا تھا ۔ اس سلسلے میں پارٹی نے پورے پاکستان میں ’’لیاقت علی جواب دو‘‘ نامی ایک پمفلٹ تقسیم کیا ۔ مزدور آبادیوں ، شہروں اور دیہاتوں میں ۔ یہ چاروں بھی اسی سیاسی کام میں آگے آگے رہے ۔ یہی دوست میلا رام کاٹن ملز نامی فیکٹری میں پارٹی اخبار بیچنے جاتے تھے ۔ ان میں شوق تھا ‘لگن تھی ، تھرل تھا ۔۔۔ خوب خوب سیاسی کام کرتے تھے ۔ اس عمل میں گزرتے گزرتے خواجہ مظہر کو چھوڑ کر بقیہ تینوں دوستوں کو پارٹی کی ممبر شپ دی گئی ۔ شمیم اشرف ملک ڈسٹرکٹ کمیٹی کا سیکرٹری ہوا کرتا تھا۔ اس طرح اب یہ لوگ مستند کمیونسٹ بن چکے تھے ۔
خواجہ رفیق کی انار کلی میں دکان تھی۔ مفتی کا سا ئیکلوں کاکام تھا ۔ مولوی رحمان خام کاٹن اور خام پشم برآمد کرتا تھا ۔ لمبی داڑھی رکھ کر رحمن تو بن گیا مولوی رحمن۔ عبید اللہ ماں کی طرف سے فتویٰ دینے والے خاندان سے تھا اس لئے اسے مشہور کر لیا گیا مفتی کے نام سے ۔ رہ گیا خواجہ رفیق وہ تو بڑی تبدیلی نہ کر سکا ، محض خواجہ کو رفیق سے پہلے ڈالنے کی بجائے آخر میں ڈلوایا ۔وجہ :دو خواجہ رفیق تھے لاہور میں۔ ہمارا یار تو کمیونسٹ تھا جبکہ دوسراخواجہ رفیق غیر کمیونسٹ تھا مگر نام کی مماثلت کی وجہ سے پولیس اسے اکثرتنگ کرتی تھی ۔ شریفوں کا کلچر ہی یہ تھا کہ سعید رفیق کاوالد خواجہ رفیق کو ہمارے کمیونسٹ خواجہ رفیق کی وجہ سے تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے ۔ سو ہم خواجہ رفیق سے رفیق خواجہ بن گئے ۔
یہ تینوں دوست سیاست مشترکہ طور پر کرنے لگے ۔ سماجی زندگی بھی تینوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ۔ سیر بھی اکٹھے کرنے جانا ۔ سیاسی انڈر سٹینڈنگ تھی ، سٹڈی سرکل ان کی مشترکہ تربیت گاہ تھی ۔ ایرک مرحوم کا عطا کردہ ڈسپلن ، لال خان کا دیا ہوا خود ایثاری کا عملی درس، اورسائنسی اجتماعی شعور ۔۔۔۔ دنیا ہی بدل گئی تھی ۔ بہت سارے تواہمات کا خاتمہ ہوتا چلا گیا اور دوستیاں گہری ہوتی گئیں ۔ ایک دوسرے کی اچھائی چاہنا‘ زندہ دلی کی خداداد خصلت کو بروئے کارلانا ،برداشت کرنا ۔۔۔ یہ ان کی ساری آپسی پکی دوستی کا راز تھے ۔
خواجہ صاحب میٹرک پڑھ کر روٹی روزگار میں جت گیا ، مفتی انٹر کر کے اپنے کاروبار میں لگ گیا ، نازش کشمیری میٹرک کے بعد فوج میں چلا گیا اور مولوی رحمن نے گریجویشن کرنے کے بعد موسمیات کا ایک کورس کرلیا اور محکمہ موسمیات میں بھرتی ہوکر برطانوی راج کے چپے چپے میں جلیبیاں کھانے آتا جاتا رہا ۔
1954 میں لیاقت علی کا اسلام رنگ لایا اور نظریہ پاکستان نے کمیونسٹ پارٹی پر باقاعدہ پابندی نازل کردی ۔ لیکن آخری الیکشن میں جب پارٹی نے مرزا ابراہیم کو الیکشن لڑوایا ۔ تو ان یاروں نے اس میں خوب کام کیا۔ اس میں انہیں نئے نئے ساتھی مل گئے ۔ چودھری انور ، میاں منت اللہ ، پنڈی کا چودھری بشیر اور فیصل آباد کا لعل‘ میاں محمود احمد ۔۔۔ لال خان تو پرانوں کے ساتھ پراناتھا ، جوانوں کے ساتھ جوان تھا ۔ وہ ان سب نو آموز لوگوں کو ’’قابو میں رکھنے ‘‘ کی نگرانی والا افسر تھا ۔ لال خان فوت ہوا ‘بقیہ دوست ساتھ تو رہے مگر گہرے دوست نہ بن سکے ۔ مگر میاں محمود اپنی درویش طبعی ، سیماب صفتی ، بے غرضی اور بہادری کے وسیع اوصاف کے ساتھ خود کارطریقے سے اس فولادی تکون میں جا گھسا ۔
خواجہ صاحب کے والدین تو وہی کشمیر ی شال وغیرہ کا کام کرتے تھے مگر خواجہ جی خود مختلف کاروبار چکھتا اور مسترد کرتا چلا گیا ۔ انار کلی میں ایک دوست کے ساتھ دکان الاٹ کرائی ۔ وہی دکان پھر تجربہ گاہ بنی ۔ کراکری کا کاروبار کرتے کرتے سوٹ کیس بیچنے لگا ، کشیدہ کاری کی دکان چلاتے چلاتے فوٹو سیٹیٹ تک جا پہنچا ۔ جگہ اور ٹریڈ بدلتے بدلتے آخری ’’رفیق ہوٹل ‘‘ والا کاروبار وہ اس لیے نہ بدل سکا کہ اب بڑھاپا غالب آچکاتھا ۔ وہ بہت عرصہ پہلے بھی پنڈی میں ایک بلڈنگ کرایہ پر لے کر ہوٹل چلاتا رہا تھا ۔
خواجہ رفیق پارٹی کے حکم پہ کبھی مسلم لیگ کبھی عوامی لیگ سے ہوتے ہوئے بمع اپنے سارے دوستوں کے آزاد پارٹیاں بناتے بناتے نیپ میں چلا گیا ۔ انڈیا کے راستے بنگال کے دورے کرتا کرتا نیپ بھاشانی کا چوغہ پہنا اور حکمرانوں کی بد مستیوں کے ہاتھوں اپنے بنگالی کامریڈوں سے حتمی جدائی کے زخم کھا کر1970 میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی بنا چکا ۔ اور ٹھیک تین سال بعد راقم الحروف بھی اس پارٹی میں بھرتی ہو کر جلد ہی اس فولادی دوستی میں پایا گیا جہاں میاں محمود تھا، خواجہ رفیق تھا ، ملک اسلم تھا ، سی آراسلم تھا۔
میاں محمود ہماری پارٹی میں ایثار اور قربانی کا نمونہ تھا ۔ ہم باقی دوست اسی کی سنت میں گھٹنوں کے بل چلنے والے تھے ۔ میاں صاحب نے میکلوڈ روڈ پر پارٹی کے لئے دفتر اپنے پیسوں پہ خرید رکھا تھا۔ اس کی مرمت ، آرائش ، فرنیچر سب کچھ میاں صاحب نے اپنے ذمے لے رکھا تھا ۔ بیرون ملک جانے والے وفود کا خرچہ ، لیڈروں کے دوروں کا خرچہ ۔۔۔ حتیٰ کہ فوری ضرورت پہ اپنی گاڑی تک بیچ کروہ پیسے پارٹی کو دیا کرتا تھا ۔ پارٹی کے اخبار ’’ عوامی جمہوریت‘‘ کے مالی امور کا بڑا حصہ اسی کی جیب سے آتا تھا ۔ اس اخبار کو’’ایک ‘‘پبلشر چاہیے تھا ، سو وہ ’’ایک ‘‘آدمی خواجہ رفیق ہی تھا ۔ اخبار سید مطلبی فریدآبادی اور پھر سی آر اسلم چلاتے تھے ، سب کی گرفتاریوں کی صورت میں مولوی رحمن اسے نبھاتا تھا ۔ ایک آدھ دفعہ ایڈیٹری راقم الحروف کے سر پہ بھی پہنائی گئی تھی ۔ پبلشنر اور پرنٹرخواجہ صاحب کو پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ اس میں کیا کچھ لکھا جانے والا ہے ۔ اچانک کوئی مضمون پولیس کواچھا نہ لگتا ، اور بے چارے خواجہ صاحب کو جیل میں بند ہو کرہی پتہ چل جاتا تھا کہ ’’اس‘‘ کے اخبار عوامی جمہوریت میں ’’خدارا وطنِ عزیز کو بچائیے ‘‘ کے عنوان سے بلوچستان میں فوج کشی کی مخالفت پہ لکھا جانے والا مضمون پاکستان کی یک جہتی ، سا لمیت اور استحکام کے لئے خطرہ قرار دیا جا چکا ہے اور ہ بیچارا فوراً ہی کہتا ’’ہاں، میں نے ہی چھپوایا ہے وہ مضمون‘‘۔ ( ہم پچھلی صدی میں80 کی دہائی کی بات کررہے ہیں)۔خواجہ رفیق اس جیل کے علاوہ بھی دو اور بار سوشلزم کی سیاست میں جیل یاتر ا کر چکا تھا ۔
خواجہ بہت ایماندارشخص تھا ۔ صاف گوئی میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا ۔بحث مباحثوں میں گرمجوشی سے حصہ لیتا تھا، زندہ دلی کے ساتھ ۔ اپنے موقف پر سنجیدگی اور پُرزوردلائل دیتا تھا ۔ سیاست میں رکھ رکھاؤ بالکل نہ کرتا تھا ۔ پاکستان میں کمیونسٹ سیاست کی تاریخ میں کئی بڑے اور اچھے فیصلے خواجہ رفیق اور اس کے دوستوں کے اٹل موقف کی وجہ سے رونما ہوئے ۔
خواجہ صاحب بہت ہی خوش لباس شخص تھا۔ کوٹ پتلون ٹائی ، اس کے لمبے اور صحت مند گورے جسم پہ خوب سجتا تھا ۔ وہ کلین شیو کرتا تھا ہنستا مسکراتا رہتا۔ لطیفے ساز خواجہ خوش خوراک بھی بڑا تھا ، حریسہ ، حلیم، سری پائے ، کلچے ۔۔۔ پتہ نہیں کیا کچھ تناول فرماتا رہتا ۔ بولتا رہتا تھا سیاست پہ ، سیاحت پہ ۔
اس نے بڑی دنیا کی سیر کی تھی ۔ ہند اور بنگال کو تو سوشلزم کی تلاش میں روند ڈالا تھا ، سوویت یونین وہاں کی پارٹی نے علاج کروا کردکھالیا اور یورپ بیٹوں اور بھائی کی وجہ سے دیکھا ۔ اس کے دو بیٹے (خواجہ شاہد اور ساجد )اور ایک بھائی یورپ میں روٹی کماتے ہیں ۔
کوئٹہ وہ مجھ سے ملنے اپنی پوری فیملی کے ساتھ آیا ۔ بہت دن رہا اور آس پاس کا خوب نظارہ کیا ۔ میرے بے سڑک گاؤں ماوند بھی وہ اپنی موٹر کار پر پوری فیملی کے ساتھ میرے بیٹے کی شادی پہ آیا ۔ پورا کوہلو بارکھان ،فورٹ منرو اور ڈیرہ غازیخان دیکھا ۔ بڑھاپے میں سیاحت!! خواجہ واقعتا زندگی سے چن چن کر لطف اٹھاتا تھا۔
اسے سیاست آتی تھی ، تجزیہ کرنا تو خیر سی آر اسلم نے اپنے ہر ورکر اور دوست کو سکھا رکھا ہے ۔ شیعہ ، سنی ، احمدی ، قومی ،نسلی اور دیگر معاملات کو اس نے ہمیشہ جدلیاتی مادیت کے حوالے سے ہی دیکھا ۔ ہر واقعے کو سائنسی اصولوں پر ناپتا تھا ۔ خواجہ صاحب کی اہم ترین بات یہ تھی کہ سوشلزم کے ساتھ اس کی کمٹ منٹ بے انتہا تھی ۔ وہ انسانیت کی فلاح اسی نظام میں دیکھتا تھا ۔ وہ ضیاء الحق کی بادشاہی تک میں ،اور سوویت یونین کے خاتمے پر بھی سوشلزم سے مایوس نہ ہوا ۔ نیکی کا دریا تھا وہ ۔ صاف گو اور صاف دل انسان تھا ۔ خواجہ رفیق آرٹ دوست انسان تھا ۔
اپنی عمر کے آخری پانچ سالوں میں وہ بیماریوں کے حملوں کا نشانہ بنتا گیا ۔ آنکھ کی بینائی کمزور ہونے لگی ، پتھر گردے میں ، بلڈ پریشر نالیوں میں اور پھرسکڑاؤ آنے لگا گُردوں میں ۔ آخری برس تو بس ڈایا لیسز پہ ہی رہا ۔ اس کی بیگم اور بچوں نے اس کی بڑی خدمت کی ۔ اس کے کامریڈز نے بھی اسے بیماری میں تنہائی کا احساس بالکل بھی نہ ہونے دیا ۔ اور اس کی موت پہ بہنے والے ہزاروں آنسو اُس کے شایان شان تھے ۔۔۔ پنجابی آنسو ، بلوچ آنسو ، مہاجر آنسو ، مزدور آنسو ، لیڈری آنسو ، دانشوری آنسو ، بزرگ سن آنسو۔۔۔
کامریڈ خواجہ محمد رفیق سکھ کی نیند سوؤ کہ تم دکھی انسانیت کے لئے بہت راتیں جاگے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے