Baam-e-Jahan

کیا عورت واقع میں انسان سمجھی جاتی ہے؟

محمد نبی چترالی


عورت تین طرح کی پائی جاتی ہے۔ ایک اس خوب صورت مذہبی و اخلاقی لبادے میں کہ "عورت کو مذہب نے سب سے زیادہ حقوق دیے۔” عورت ماں بھی ہے اور بہن بھی۔ اس کے پاؤں تلے جنت بھی ہے اور وہ پیکر مروت بھی ہے۔ اس عورت کا وراثت میں حق ہے۔ اس کے شوہر پر حقوق ہیں۔ بھائی اور والد سے کچھ مطالبے ہیں۔
دوسری عورت تخیل میں موجود ہوتی ہے اور اسی تخیلی عورت کی تصویر سے کائنات میں رنگ ہے۔ جو عورت انسانی تخیل میں پائی گئی ہے، وہ کچھ اس طرح کی ہے:وہ بیوی ہے تو گھر کی وزیراعظم ہے۔ وہ ماں ہے تو گھر بار کی رونق ہے۔ وہ بیٹی ہے تو مجسمہء پیار ہے۔ وہ بہن ہے تو بھائی کے لیے سرمایہء جان ہے۔ اگر وہ طوائف بھی ہے تو لائق ہمدردی و احترام ہے۔ کہ پیشے میں عیب نہیں۔
ان دو اقسام کے علاؤہ ایک تیسری قسم کی عورت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ عورت میرے گھر میں ہے۔ یہ میرے پڑوس میں ہے۔ یہ میرے معاشرے میں ہے۔ یہ حقیقی عورت ذات ہے۔ جو دیدہ عبرت نگاہ کے دیکھنے کی شے ہے۔
اس عورت کی کہانی میرے گھر سے شروع ہوتی ہے اور گھر گھر پر ختم ہوتی ہے۔
ہم دو بھائی ہیں اور پانچ بہنیں ہیں۔ والد صاحب الحمداللہ حیات ہیں۔ تیرہ سال پہلے حج کی فضیلت حاصل کی۔ زندگی کا ایک حصہ تبلیغ دین اور علماء کی محفلوں میں بیتا۔
بڑا بھائی بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ایک قدم آگے ہیں۔ حاجی وہ بھی ہیں اور سال چار ماہ اور چلے میں اکثر ہوتے ہیں۔ آج کل بھی پنجاب کے کسی دور افتادہ علاقے میں کسی بھٹکے کو صراط مستقیم کی طرف کھینچ رہا ہے۔
میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوں۔ اور اپنی مرضی سے اپنی زندگی جی رہا ہوں۔
میری پانچ بہنیں ان پڑھ ہی رہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی شادی بھی ان سے پوچھ کر نہیں ہوئی، کجا کہ مرضی کی ہوتی۔ ان کو وراثت میں کچھ نہیں ملا۔ والد اپنی ڈھلتی عمر کا چراغ گل ہوتے دیکھ رہا ہے مگر اپنی عمر میں یہ دیکھنا نہیں چاہے گا کہ بیٹیوں کو جائداد میں ان کا حق ملے، ان پر جو تعلیم و روزگار کے در بند کیے گئے، معافی مانگے۔
یہ اپنے گھر کی حقیقی عورت کی مکمل تصویر نہیں، تصویر کی اک چھوٹی سی اکائی ہے۔ کاش بات صرف عورتوں کو ان پڑھ، جائیداد میں حصہ نہ دینا، بےروزگار یا پھر شادی میں اپنی مرضی ٹھونسنے تک محدود رہتی۔ ان کے علاؤہ بھی دہر میں بڑے ستم ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ سوال صرف یہ ہے کہ میرے والد، بھائی اور مجھے بطور مرد جو آزادیاں اور عیاشیاں میسر ہیں، وہ گھر میں موجود عورتوں کے حصے میں کیوں نہ آئیں؟ جواب ایک ہی ہے کہ عورت انسان نہیں۔
ہم تینوں جو گناہ کرتے ہیں، ہم سے سوائے خدا کے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مگر عورت سے خدا سے بھی بہت پہلے ہم پوچھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر۔ ہمارے جسم پر ہماری مرضی ہے۔ مگر عورت کے جسم پر بھی، ان کی نہیں، ہماری مرضی ہے۔
چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ سنا ہمارے پڑوس میں ایک صاحب نے بیوی کا سر پھوڑ دیا ہے۔ اس تشدد کی وجہ بڑی دلچسپ بھی اور کربناک بھی تھی۔ "یہ بھینس کی طرح سوتی رہی اور ہم سے صبح کی نماز فوت ہوگئی۔ اس نے جگایا نہیں” ان صاحب نے اپنی زبانی بتایا۔
اپنے رشتہ داروں میں ایک ایسے شخص کو بھی جانتا ہوں کہ اس کے ہاں 17 بچے پیدا کیے گئے۔ تین شادیاں ہوئیں۔ وجہ یہ تھی کہ سب بیٹیاں پیدا ہو رہی تھیں، بیٹا پیدا کرنے کے لیے سترہ انسان نما جانوروں کا جنم ہوا۔ اور تین سوکنیں عمر بھر ایک دوسری کو کھاتی رہیں۔۔۔ اگر بیٹی کو انسان سمجھا جاتا تو کیا یہ سب کیا جاتا؟
وہ تاریک منظر بھی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے جب جہیز کم لانے پر مردان میں ایک شخص نے بیوی کو تیسرے دن چلتا کر دیا۔
اپنے رشتے میں ہی غیرت کے نام پر قتل ہونے والی کمراٹ تھل میں بیاہی گئی اس ماں کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کا بچہ پیدا ہوئے ابھی تین دن ہوئے تھے اور دیور نے سینے سے چمٹے بچے کو زبردستی لے کر ماں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی تھل کوہستان میں اس افضل کوہستانی کو بھی یاد کرتے ہیں تو کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ بات اتنی سی تھی کہ ایک ویڈیو منظر نامے پر نمودار ہوئی جہان چار لڑکیاں گا رہی ہیں اور دو مرد ناچ رہے ہیں۔ جرگہ کا فیصلہ ہوا۔ چار لڑکیوں کو قتل کردیا گیا۔ افضل کوہستانی برسوں پرانی روایت کو توڑنے اور عورت کو غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ افضل کوہستانی کے تین بھائی مارے گئے۔ 6 مارچ 2019 کو ایبٹ آباد میں سرعام شہید کر دیا گیا۔ افضل کوہستانی عورت کو تو انسان ثابت نہ کرسکا۔ کہ وہ اب بھی اسی طرح پٹ رہی ہے۔ البتہ اپنے آپ کو درندوں کے اس معاشرے میں انسان ثابت کر گیا۔
عورت کو مذہب نے حقوق دیے۔ اس میں کلام نہیں۔ کیا اہل مذہب نے دیے؟ حقوق کیا دینے تھے، جو ساتھ گوشت پوست لے کر آئی تھی، وہ تک چھین لی۔ تخیل کی دنیا میں یہ اقبال کے الفاظ میں کائینات کی تصویر میں رنگ بھرتی ہے۔ اور اسی کے شعلے سے شرار افلاطوں ٹوٹا۔ کیفی عظمی کی بھاشا میں اس کے قدموں میں فردوس تمدن کی بہار ہے۔ اور نظروں پہ تہذیب و ترقی کا مدار ہے۔ مگر۔ مذہبی اور تخیلاتی دنیا سے الگ تھلگ ایک اور دنیا بھی آباد ہے۔ یہ حقیقت کی دنیا ہے۔ جہاں ایک طرف حافظ حمداللہ ہے تو دوسری طرف خلیل قمر ہے۔ اس دنیا میں موت کے ساتھ رقص کرتی چار کوہستانی لڑکیاں ہیں تو دوسری طرف ایک جرگہ ہے اور بندوق برداروں کا ٹولہ ہے۔ یاں ایک طرف وراثت میں حق نہ پانے والی محروم بیٹی ہے تو دوسری طرف جہیز نہ لانے پر دھتکاری جانے والی بہو ہے۔ یاں ایک طرف آل پاور فل بیٹا ہے اور دوسری طرف نحیف خستہ زار بیٹی کا دیوار جو سر ہے۔ یاں ایک طرف بدکاری کرنے والے مرد کا چوڑا اور تمتماتا فخریہ سینا ہے تو دوسری طرف زبردستی زیادتی کا نشانہ بننے والی سدا کی پھٹکار اور نفرت سہنے والی کھڑی عورت ہے۔ یاں ایک طرف باعزت بری ہونے والا مرد ہے تو دوسری طرف تیزاب زدہ چہرہ ہے۔
عورت مارچ کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ حقیقی دنیا میں پائی جانے والی اس عورت کو سمجھا جائے اور اس تلخ حقیقت کو تسلیم بھی کیا جائے۔ حقیقت تسلیم کرنے کے بعد عورت کو انسان باور کیا جائے۔۔۔ بس۔ کوئی چاند تارے توڑ لانے کی بات تو نہیں کر رہا۔۔۔ اے مرد خدا آئے کہ عورت کو ساتھ لے کر چلیے۔

عورت کے نام، ہمارا پیام۔۔۔۔۔

رسم کا بت بند قدامت سے نکل
ضعف عشرت سے نکل وہم نزاکت سے نکل

نفس کے کھینچے ہوئے حلقۂ عظمت سے نکل
قید بن جائے محبت تو محبت سے نکل

راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

توڑ یہ عزم شکن دغدغۂ پند بھی توڑ
تیری خاطر ہے جو زنجیر وہ سوگند بھی توڑ

طوق یہ بھی ہے زمرد کا گلوبند بھی توڑ
توڑ پیمانۂ مردان خرد مند بھی توڑ

بن کے طوفان چھلکنا ہے ابلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے