عزیز علی داد

گلگت بلتستان میں حقیقت سے فرار

از: عزیزعلی داد کمزور سماج میں مصنوعی ذہانت (AI) انفرادی نفسیات کے کونے کھدروں میں مخفی خواہشات، خوابوں، محرومیوں اور فنتاسیاتی تصورات کو تصویری جامہ پہنائے گی اور یوں حقیقت...

Chitral varsity campus 490

چترال یونیورسٹی: زرعی زمین پر کیمپس کی مخالفت


سپین کے عوام اپنی زرعی زمینوں کو بچانے کیلئے پر امن جلسہ اور مظاہرہ، یونیورسٹی کو آبادی سے ہٹ کے غیر آباد جگہ میں بنایا جائے۔


رپورٹ: گل حماد فاروقی

۔چترال کے مضافاتی علاقے سین کے لوگوں نے اتوار کے روز جامعہ چترال کیلئے زرعی زمینوں کو استعمال کرنے کی تجویز کے خلاف پرامن مظاہرہ کیا اور جلوس نکالے۔ بجائے کسی بنجر مقام پر عمارت تعمیر کیا جائےاپنے حقوق کیلئے ایک ریلی نکالی اور  گرم چشمہ روڈ پر پر امن جلسہ کیا جس کی صدارت مفتی عبد الحکیم نے کی۔ مظاہرین نے بینرز اٹھائے ہوئے پیدل مارچ بھی کیا۔

سپین چترال کے عوام چترال یونیورسٹی کے مجوزہ نئی کیمپس کے لئے زرعی زمین کو استعمال کرنے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تصویر گل حماد فاروقی

جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے  مقررین نے  کہا کہ جامعہ چترال کیلئے  حکومت نے سید آباد  کے مقام پر 166 کنال  زمین  پہلے  سے خریدا ہوا ہے، مگر ابھی تک  اس پر  تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا ہے۔

مقررین نے کہا کہ سین ایک خوبصورت زرعی حطہ ہے جہاں ہر طرف لہلہاتےفصلیں اور پھلدار درختوں کے باغات ہیں۔  اگر چترال یونیورسٹی کیلئے اس ذرعی زمین پر عمارت تعمیر کی گئی  تو اس کی خوبصورتی بری طرح متاثر ہوگی۔

جلسہ میں ایک متفقہ قرارداد  کے ذریعے  حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اس سر سبز زمین  کو بچایا جائے یا پھر مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق  زمین کی قیمت ادا کی جائے۔

لوگوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلے بھی ٹیکنیکل کالج، محکمہ زراعت کے دفاتر، بجلی گھر، نہر اور سڑک کے لئے زمین دی ہے۔ اب ہمارے پاس صرف قبرستان اور ذراعت کی زمین باقی ہے۔ اگر حکومت یہ بھی لینا چاہتی ہے تو ہم کہاں جائیں گے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جامعہ چترال کی عمارے کسی ایسے زمین میں تعمیر کی جائے جو غیر آباد یا بنجر ہو اور کھڑی فصلوں کو اس مقصد کیلئے تباہی سے بچایا جائے۔



لوگوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اگر حکومتہر صورت زمین لینا چاہتی ہے تو ہمیں کم از کم مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمین کا معاوضہ ادا کی جائے۔

خواتین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی ذمہ داری غیر آباد زمین کو آباد کرنا ہے نہ کہ سیاحتی مقام کو حراب کرنا۔ ہم اس زمین میں موجود پھلوں کو  خشک کرکے اسے بیچتے ہیں اور اس سے اپنے بچوں کی تعلیمی اخراجات پورا کرتے ہیں۔ جس سے ہم محروم ہوجائنگے۔ مقامی لوگوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ سے بھی اپیل کیی کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس علاقے سے ان کو نقل مکانی پر مجبور نہ کیا جائے۔

جلسہ سے عنایت اللہ اسیر، ضیاء شاہ، قاری نظام دروش، مفتی عبد الحکیم اور دیگر نے اظہار حیال کیا۔

جلسے میں ایک ایسا ضعیف العمر شحص بھی موجود تھا جو 1965 اور 1971 کے جنگ میں بھی شامل ہوئے اور 1971میں جنگی قیدی بھی بنے۔ ان کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ انہیں زمین دے نہ کہ ان سے زمین چین لے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں