تحریر: اسرارالدین اسرار
حالیہ تباہ کن سیلاب نے پاکستان سمیت گلگت بلتستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی تباہ کاریوں کے نشانات جگہ جگہ ان تلخ لمحات کی یاد تازہ کرتے دیکھائے رہے ہیں جب ہر طرف قیامت خیز مناظر تھے۔ البتہ ملک کے دیگر حصوں اور گلگت بلتستان کے سیلاب میں فرق یہ ہےکہ یہاں آسمانی بجلی گرنے، گلیشرز کے اوپر جھیلوں کے پھٹنے اور نالوں میں طغیانی کے نتیجے میں پہاڑوں کے اوپر سے ایک خوفناک طوفان امڈ آتا ہے۔ جوبھاری پتھر، پانی، مٹی اور درخت سمیت خوفناک ملبہ اوپر سے نیچے کی طرف لے کے آتا ہے جو کہ آبادیوں کو تہس نیس کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور سینکڑوں سالوں سے آباد بستیوں کے نام و نشان مٹا دیتا ہے۔ یہ اس قدر اچانک اور تیز رفتاری سے رونما ہوجاتا ہے کہ اکثر لوگوں کو بھاگنے کی مہلت بھی نہیں دیتا ہے۔ جہاں یہ سیلاب آتا ہے وہاں دوبارہ آباد کاری ممکن نہیں ہوتی اگر کوشش کی بھی جائے تو اس کے لئے سال ہا سال کی سخت محنت درکار ہوتی ہے۔
گلگت بلتستان میں حالیہ تباہ کن قدرتی آفت کے بعد ابتدائی طور پر ریسکیو کا کام گو کہ سستی روی کا شکار تھا تاہم اس کے بعد شروع ہونے والا راحت کاری کا کام قدرے بہتر اور حوصلہ افزاء نظر آ تاہے۔ امید ہے کہ یہ کام احسن طریقے سے یوں ہی آگے بڑھتا رہے گا۔
آبادکاری و بحالی
سیلاب کےبعد اصل کام متاثرین کی از سر نو آباد کاری اور بحالی (Rehabilitation) کا ہوتا ہے ، جس کے لئے مہارت اور وسائل دونوں درکار ہوتے ہیں۔ بحالی سے مراد ہمارے ہاں عام طور پر بے گھر افراد کے لئے زمینوں کی فراہمی اور گھروں کی تعمیر نو ہوتی ہے۔ جو کہ یقیننا ایک بنیادی اور اہم کام ہے۔ امید ہے کہ گلگت بلتستان میں حالیہ سیلاب سے مکمل تباہ ہونے والے 418 اور جزوی طور پر تباہ ہونے والے 252 گھروں کے علاوہ انفراسٹرکچر کی بحالی میں حکومت کی طرف سے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی۔ یہ بھی امید ہے کہ 2010 میں عطاء آباد ہنزہ کے متاثرین کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اب تک ان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ تاریخ دوبارہ نہیں دہرائی جائیگی۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ عطاء آباد کے متاثرین تاحال عارضی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
سماجی نفسیاتی بحالی
بحالی کے کام کا ایک اور اہم حصہ جس سے اکثر چشم پوشی کی جاتی ہے وہ متاثرین کی سماجی نفسیاتی بحالی کا کام ہے۔ انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ متاثرین کی نفسیاتی بحالی اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ بحالی کے کام کا دوسرا اور اہم پہلو ہے۔ آج سے پہلے ہر قدرتی آفت کے بعد سماجی نفسیاتی بحالی کا پہلو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ذہنی امراض اور اس سے جڑے ہوئے دیگر سماجی مسائل جنم لیتے رہے ہیں۔
سیلاب صرف مکان، درخت، مال مویشی، سڑکیں، بجلی اور پانی کا نظام ہی درہم برہم نہیں کرتا بلکہ اس کی زد میں آنے والے افراد کی ذہنی صحت بھی تہہ و بالا کرتا ہے۔ کسی بھی انسان کا گھر، بستی، محلہ یا گاوں جہاں ان کے اباو اجداد کی زندگیاں گزر چکی ہوتی ہیں وہ پتھر اور مٹی کے بنے مکانات، دیواریں اور گلیاں ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان درو دیواروں، گلیوں اور محلوں سے وہاں بسنے والے لوگوں کی ایک گہری نفسیاتی و روحانی وابستگی بھی ہوتی ہے جو کہ نسل در نسل طویل یادوں کے دریچوں میں سموئی ہوتی ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ افراد کو شدید ذہنی و نفسیاتی دھچکہ اس وقت لگتا ہے جب ان کے خاندان کی حسین تاریخی یادیں اجڑ جاتی ہیں۔ ان متاثرین کے جذبات کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو ایسے حادثات سے گزر چکا ہے۔ حالیہ دنوں ضلع غذر کے گاوں بوبر میں ایک بزرگ نے بہت زیادہ اصرار اور خطرے سے آگاہ کئے جانے کے باوجود اپنا گھر محض اس لئے نہیں چھوڑا کیونکہ گھر کے مٹ جانے کی صورت میں ذندہ رہنا ان کے لئے بے معنی تھا۔ وہ بزرگ بعد ازاں اس خوفناک سیلاب کی زد میں آکر جاں بحق ہوا اور مقامی لوگوں کے کہنے کے مطابق تاحال ان کی لاش بھی نہیں مل سکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عام حالات کی نسبت قدرتی آفات کے متاثرین میں ذہنی صحت کے حوالے سے درپیش مسائل دو سے تین گنا ذیادہ ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات کے نتیجے میں صفحہ ہستی سے مٹنے والے گھروں، گلی محلوں اور بستیوں کی ایک ایک چیز جب یاد آتی ہے تو وہ ایک کربناک احساس ہوتا ہے۔ وہ ہر لمحہ ناقابل بیان اور ناقابل فراموش ہوتا ہے۔ جس کو پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر یا بعد از صدمہ ذینی دباو کہا جاتا ہے۔ جس کا شکار عموما خواتین، بچے، غریب ، بزرگ، نسلی، لسانی و دیگر اقلیتیں، تنہا افراد، اہل خانہ یا اپنے پیارے کو کھو دینے والے لوگ، بے گھر افراد، ذہنی مرض میں پہلے سے مبتلا، کمزور دل، روزگار کھو دینے والے یا بے روزگار، گھر اور معاشرے سے دھتکارے ہوئے، نشہ کے عادی، افراد باہم معذوری اور حادثات میں لوگوں کی مدد کرنے والے رضا کار ہوتے ہیں۔
بعد از آفات کے مرحلے
قدرتی آفات کے رونما ہونے کے بعد کی صورتحال کو ماہرین چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
کسی بھی قدرتی آفت کے ابتدائی مرحلہ کو ہیرویک فیز کہا جاتا ہے جو کہ ابتدائی ایک ہفتے کا ہوتا ہے جب لوگ چاروں قریبی اطراف سے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ جانیں بچانے، زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے، خوراک پہنچانے، ملبہ ہٹانے، لاشیں دفنانے اور لوگوں کو محفوظ مقامات میں منتقل کرنے کا کام کرتے ہیں اس میں جو جذبہ مدد کرنے والے لوگوں میں ہوتا ہے وہ ایک ہیرو کی طرح کا ہوتا ہے۔ ہر کوئی ہیرو بننے کی کوشش میں ہوتا ہے اور لوگوں کی خوب مدد کررہا ہوتا ہے۔
دوسرا مرحلہ ہنی مون فیز کہلاتا ہے جب لوگ اشیاء خودونوش کے ساتھ ساتھ بسترے، ٹینٹ، عطیات اور ہر طرح کا ساز و سامان لے کر دور دراز سے متاثرہ لوگوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں، ان کی داد رسی کرتے اور تصویریں بناتے ہیں۔ حکمران، سیاست دان، میڈیا اور طرح طرح کے فلاحی ادارے اور مفت طبی امداد فراہم کرنے والے موقع پر پہنچ جاتے ہیں اور امدادی سامان کے ٹرک کے بعد ٹرک بھر کے لائے جاتے ہیں۔ جگہ جگہ امدادی کمیپ لگا کر چندہ جمع کرتے ہیں اور متاثرین کی مدد کے لئے ایک باقاعدہ مہم شروع کی جاتی ہے۔ متاثرین لوگوں کی طرف سے خیر سگالی کا یہ جذبہ دیکھ کر اپنا دکھ درد اور غم بھول جاتے ہیں۔ یہ مرحلہ دو سے تین ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے
تیسرا مرحلہ مایوسی (ڈس ایلوژنمنٹ) کا ہوتا ہے جب لوگوں کا رش کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ساری دنیا اپنے معمولات زندگی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ متاثرین سے لوگوں کی توجہ ہٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ سیاست دان دورے کرنا بند کرتے ہیں، میڈیا ، انتظامیہ اور فلاحی اداروں کی توجہ کم ہوجاتی ہے۔ مایوسی کے چھاوں متاثرین کے سروں پر منڈلانا شروع ہوجاتے ہیں۔ امدادی سامان ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر امدادی سامان کی غیر منصفانہ تقسیم کے حوالے سے بے بنیاد الزامات لگارہے ہوتے ہیں۔ حکمرانوں سے گلے شیکوے کئے جاتے ہیں۔
ایسے میں حقیقی جذبے سے کام کرنے والے لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اب متاثرین کو معلوم ہوجاتا ہے کہ جو ہمدردیاں تھیں وہ سب وقتی تھیں۔ اس وقت متاثرین کو اس حادثے کی شدت اور گہرائی کا ادارک ہونے لگتا ہے۔ پھر وہ سوچنے لگتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو ہوا وہ بہت ہی بھیانک تھا۔
یہ مرحلہ ایک سے چھے مہنے کا ہوتا ہے جو ان متاثرین کی ذہنی صحت کو شدید متاثر کرتا ہے۔ اس وقت ان کو وہ تمام تلخ مراحل ڈراونے خواب بن کر یاد آنے لگتے ہیں جب وہ حادثے سے دوچار ہوئے تھے۔ متاثرہ افراد ہونے کی ندامت ان کو اندر سے کھانا شروع کرتی ہے، اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکنے کا خوف پیدا ہوجاتا ہے۔گویا ان کو ذہنی مرض لاحق ہونا شروع ہوجاتا ہے، نشہ کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے، موت اچھی لگنے لگتی ہے، خودکشی کے خیالات آنے شروع ہوجاتے ہیں جس کے لئے ان کے پاس بے قابو جذبات کی دلیل موجود ہوتی ہے۔
یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب ان متاثرین کو نفسیاتی سماجی بحالی (سائیکو سوشل (ری ہبلیٹیشن) کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ قومیں اس مرحلے کے لئے سائنسی بنیادوں پر ماہرین کی مدد سے ایک جامع منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس ضمن میں کچھ مختصر کوششیں بعض اداروں کی طرف سے کی جاتی ہیں مگر یہ کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوتی ہیں۔ اس لئے ان کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلتے ہیں۔ جب کہ اس مرحلے میں ان متاثرین کے ساتھ تسلسل سے روابط قائم کرنے اور ان کی ذہنی صحت کے لئے مشورے، علاج اور مختلف نوعیت کی صحت مند سرگرمیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماضی میں گلگت بلتستان میں خودکشیوں کے بڑھتے واقعات کی ایک وجہ یہ بھی بتا ئی گئ ہے کہ یہاں ذہنی صحت کے بڑے مسائل ہیں اور ان کا تعلق دیگر عوامل کے علاوہ قدرتی آفات سے بھی ہے۔ ذہنی امراض جہاں مایوسی کو جنم دیتے ہیں وہاں گھریلو تشدد اور دیگر جرائم کو بھی فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔
ایک سے چھے مہنے کے اس مایوسی کے مرحلہ پر اگر بہتر طریقے سے کام کیا جائے تو اس کے بعد آخری مرحلہ شروع ہوتا ہے جس کو مکمل بحالی کا مرحلہ کہا جاتا ہے۔ متاثرہ فرد یا افراد مذکورہ مراحل سے جب اچھے طریقے سے نکلتے ہیں تو وہ مکمل بحالی کے مرحلے سے مطمئن ہوتےہیں اور ان کی زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہوجاتی ہے۔ یہ مرحلہ سال سے دو سال کا ہوتا ہے۔
گو کہ اس ضمن میں پورے ملک میں کوئی پالیسی تیار نہیں کی گئ ہے لیکن اس کا آغاز گلگت بلتستان جیسے چھوٹے اور کم آبادی والے علاقے سے کیا جاسکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری ادارے متاثرین کی سماجی نفیساتی بحالی کے ضمن میں منصوبہ بندی کریں ۔ انسانی حقوق کی کمیشن پاکستان (ایچ ار سی پی) نے دو مہنے قبل اس ضمن میں گلگت میں تمام متعلقہ اداروں کے نمائندوں اور شخصیات کی ایک بیٹھک بھی رکھی تھی اور سفارشات بھی مرتب کی تھی۔ جس میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے انسانی حقوق کے تناظر میں رسپانس میکانزم تیار کرنے کی سفارش سرفہرست تھی۔ بدقسمتی سے تاحال اس ضمن میں سرکاری سطح پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
دادی جواری پبلک پالیسی سینٹر اس ضمن میں ایک میکانزم یا پالیسی بنا سکتی ہے۔ جب تک کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بنتی ہے۔ دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے گلگت بلتستان ڈساسٹر منیجمینٹ اتھارٹی، سوشل ویلفئر ڈیپارمینٹ، آغا خان ایجینسی برائے ماحولیات کا، محمکہ صحت اور آغاخان ہیلتھ سروسز مل کر اس ضمن میں ایکشن پلان بنا کر اس پر عملدرآمد شروع کر سکتے ہیں ۔ تاکہ گلگت بلتستان میں متاثرین کو ذہنی امراض میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔
اسرارالدین اسرار سینئر صحافی اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے گلگت بلتستان کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ وہ مختلیف قومی و علاقائی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔ بام جہاں میں ان کے مستقل کالم ‘قطرہ قطرہ’ کے عنوان سے شائع ہوتا ہے۔