مزدور پر تشدد 222

قطرہ قطرہ: مزدوروں کے حقوق


تحریر۔ اسرارالدین اسرار

 سکردو میں گزشتہ دنوں ایک آجر کی طرف سے ایک مزدور پر تشدد کر کے اس کے کان کاٹنے کا واقع شرمناک اور خوفناک ہے۔

کاظم نامی غریب مزدور ہمیشہ کی طرح بال بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر ممتاز حسین ساکن عباس ٹاؤن کے ہاں مزدوری کر رہے تھے۔ جہاں رات کے وقت مذکورہ ظالم اور درندہ صفت شخص کے گھر کی چھت میں بھرائی ہو رہی تھی۔ دوران کام سیمنٹ میں تھوڑا پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے اس شخص نے اس غریب پر ظالمانہ تشدد کرتے ہوئے پہلے جسم کے مختلف حصوں پر بلیٹ سے مارا پھر مُکے اور گھونسے مارے۔ سفاک شخص کو اس پر اطیمان نہیں ہوا تو۔اس نے آخر میں دانتوں سے چبا کر مزدور کے کان کو بری طرح زخمی کر دیا۔  میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس غریب مزدور کے کان کا 76فیصد حصہ ناکارہ ہو چکا ہے۔ غریب کاظم اس وقت آر ایچ کیو ہسپتال سکردو میں زیر علاج ہیں.

یہ بات خوش آئند ہے کہ سکردو پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ناقابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کیا ہے۔ امید ہے کہ شفاف تفتیش کے بعد ملزم کو قرار واقعی سزا دلا نے میں پولیس اپنا پورا کردار ادا کرے گی۔ 

آج کے ہوشرباء مہنگائی کے دور میں کم از کم اجرت اور اوقات کار سمیت مزدوروں کے دیگر حقوق کو سرکاری سطح پر یقینی نہ بنانے کی وجہ سے محنت کش اور مزدور طبقہ پہلے ہی مشکلات اور مصائب کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس کے اوپر مزدوروں پر آجر کی طرف سے ہونے والے جسمانی اور ذہنی تشدد کے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔

گلگت بلتستان میں محکمہ محنت تو بنایا گیا ہے مگر ان کے پاسانسانی و مالیاتی وسائل کی شدید کمی ہے۔ جب کہ لیبرانسپیکٹرز کو محدود اختیارات دئیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے محکمہ کے فوائد عام مزدوروں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔سال ٢٠١٨ میں گلگت بلتستان میں لیبر انسپیکٹریٹ قائم کیا گیا تھا۔ جس کے زیادہ ترعملہ عارضی بنیادوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اصل اختیارات انڈسٹریئل ریلیشنز ایکٹ (IRA 2008) کے تحت اب بھی ہر ضلع کے ڈی سی کے پاس ہیں. پورے جی بی کے لئے صرف چھ لیبر انسپیکٹر تعینات کئے گئے ہیں جو کہ اختیارات سے یکسر محروم ہیں۔

گلگت بلتستان میں الگ سے لیبر کورٹس نہیں ہیں۔ مقامی لوگ لیبر قوانین اور ILO کے کنونشنز سے مکمل ناواقف ہونے کی وجہ سے مزدوروں کے حقوق مکمل سلب ہورہے ہیں۔

اس وقت گلگت بلتستان اسمبلی کے کم از کم اجرت، بانڈیڈ لیبر اور بچوں کی مشقت کے خلاف بنائے گئے ٢٠٢٠ کے تین قوانین موجود ہیں۔ ملکی سطح پر رائج پیشے سے متعلق صحت و تحفظ کا ایکٹ، انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ اور شاپ اینڈ اسٹبلشمنٹ ایکٹ کو گلگت بلتستان تک بڑایا گیا ہے۔ مگر ان میں کئی سقم موجود ہیں۔ اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان میں پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم کیے جائیں، مزدوروں کے حقوق کے لئے نئے قوانین بنائے جائیں اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کو فعال بنایا جائے۔

نیز گلگت بلتستان سطح پر مزدوروں کے لئے کم از کم اجرت، اوقات کار کا تعین، کام کے جگہوں پر ہونے والے تشدد سمیت جنسی، جسمانی و ذہنی حراسانی کے واقعات کے تدارک، کام کی جگہوں پر محفوظ و مناسب ماحول کو یقینی بنانے، میڈیکل و لائف انشورنس سیمت مزدوروں کے دیگر تمام حقوق کی فراہمی کے لئے ایک جامع لیبر پالیسی بناکر اس پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔


اسرارالدین اسرار سینئر صحافی اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے کوآرڈینیٹر گلگت بلتستان ہیں۔ وہ بام جہاں میں قطرہ قطرہ کے عنوان سے سماجی مسائل پر کالم لکھتے ہیں۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں