کانفرنس میں مختلف موضوعات پر ساٹھ سے زائد تحقیقی مقالے پیش کئے گئے
رپورٹ: کریم اللہ
چودہ سے سولہ ستمبر دو ہزار بائیس تک چترال میں تین روزہ چوتھا بین الاقوامی ہندوکش ثقافتی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں دنیا کے مختلف ممالک اور پاکستان کی مختلف علاقوں سے درجنوں محقیقیں نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کئے۔ تین دن تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان آباد اقوام کی تاریخ، ثقافت، زبان، رسوم و رواج، کالاش تہذیب، موسمیاتی تعیرات سے آنے والی تبدیلیوں، جغرافیہ، سیاحت اور دیگر موضوعات پر ساٹھ سے زائد تحقیقی مقالے پیش کئے گئے۔
اس کے علاوہ متعلقہ شعبوں کے ماہریں کی جانب سے پینل ڈسکشن بھی منعقد کی گئی۔ کانفرنس کے کلیدی مقرریں شکاگو یونیورسٹی کے ماہر لسانیات ڈاکٹر ایلینا بشیر اور اٹلی کے فلورنس یونیورسٹی کے پروفیسر اگسٹو کاکو پاردو، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے سابق چیرمین پروفیسر اسرار الدین، معروف لکھاری ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی تھے۔
کانفرنس کا انعقاد فورم فار لینگوئج انیشیٹو یعنی ایف ایل آئی اسلام آباد اور انجمن ترقی کھوار نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
کانفرنس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انجمن ترقی کھوار کے صدر شہزادہ تنویر الملک نے بتایا کہ اس کانفرنس میں ترسٹھ مقالے پیش کئے گئے جبکہ تین پینل ڈسکشن ہوئی۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ چترال سے تعلق رکھنے والے دو خواتین محقیقیں نے بھی اپنے مقالے پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کے احتتام پر قرار داد پاس کی گئی جس میں سفارش کی گئی کہ ہندوکش کے پہاڑی علاقوں میں بسنے والی اقوام اور قبائل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور ایکو ساک میں انڈی جی نیس کے طور پر تسلیم اور رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔قدرتی وسائل، زمین اور پانی پر مقامی لوگوں کا حق تسلیم کیا جائے اور مقامی لوگوں کو معدنیات و دیگر وسائل سے محروم نہ کیا جائے۔تنویز الملک نے مزید بتایا کہ حکومت کی توجہ موسمیاتی تبدیلی کی طرف دلاتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ گلیشئیر پگھلنے اور جنگلات اجڑنے سے آنے والے سیلابی کی تباہی اور بربادی سے پہاڑی وادیوں میں بسنے والے ہندوکش کے قبائل کو تحفظ دینے کے لئے سائنسی اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ ایک اور تجویز یہ دی گئی کہ ہندوکش کی منفرد ثقافت اور ستائس مقامی زبانوں کو تحفظ دینے کےلئے پہاڑی اضلاع میں آرٹس کونسل اور کلچرل کمپلیکس قائم کئے جائیں۔
اس حوالے سے چترال سے تعلق رکھنے والے نامور محقق و مورخ ہدایت الرحمن نے بتایا کہ نہ صرف کانفرنس کے انتظامات بہترین تھے بلکہ طویل عرصے بعد چترال میں ہونے والے اس بین الاقوامی کانفرنس کی وجہ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا اور خطے بالخصوص چترال کی تاریخ کے نئے گوشوں سے بھی ہم روشناس ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس قسم کے کانفرنسز ہر دو سے تین سال میں منعقد ہونے چاہئے تاکہ نئے لوگوں کو تحقیق کے میدان میں آگے آنے کا موقع مل سکے اور علاقے میں علم و ادب اور تحقیق کے میدان میں نئے زاوے سے کام ہوسکے۔
علی اکبر قاضی چترال کا معروف اسکالر اور کانفرنس کا مقالہ نگار بھی ہے ان کا موقف ہے کہ اس پروگرام میں شرکت کرکے بیرون اور اندرون ملک سے آئے ہوئے اسکالرز کے مختلف موضوعات کو دیکھنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ علم و تحقیق کے حوالے سے جو بہترین کام کئے گئے ہیں وہ قابل ستائش ہے اور ہندوکش ریجن کے تقریبا تمام ایریاز کو کوریج دی گئی ہیں۔ علی اکبر قاضی کا بھی کہنا تھا کہ ہر تین سال بعد ایسی کانفرنسز کا انعقاد کیا جانا چاہئے تاکہ مستقبل میں نوجوان طالب علموں کے اندر تحقیق کا جذبہ پیدا کیا جاسکے اور اس کامیاب کانفرنس پر منتظمین بالخصوص داد دینے کے قابل ہے۔
یاد رہے کہ پہلا ہندوکش کلچرل کانفرنس کا آغاز انیس سو ستر میں ڈنمارک کے شہر مویسگارڈ سے ہوا تھا جبکہ دوسرا کانفرنس انیس سو نوے میں اور تیسرا انیس سو پچھانوے میں چترال ہی میں منعقد ہوئے تھے۔ ان کانفرسز میں پیش کئے گئے مقالہ جات کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے کتابی شکل میں شائع بھی کیا تھا۔