آغا خان ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے کروڑوں کے فنڈ میں خردبرد کا انکشاف
رپورٹ: گل حماد فاروقی
تعمیراتی کام میں غبن اور ناقص کام کی نشاندہی پر ٹھیکدار نے غنڈوں کو لے کر صحافی کے گھر پر حملہ آور ہوئے اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
ادارے اور جعلی تنظیم کی ملی بھگت سے کروڑوں روپے کا فنڈ خردبرد ہورہا ہے۔
اس کی غبن اور ناقص کام کی جب نشان دہی کی گئی تو جعلی تنظیم کے ٹھیکدار نے ہمارے نمائندے کے گھر پر متعدد غنڈوں کے ساتھ حملہ آوور ہوکر ان کو برا بھلا کہا اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
ایجنسی کے دفتر سے چند قدم کے فاصلے پر واقع سینگور گاؤں کے ایک برساتی نالے میں اٹھاسی لاکھ روپے کی لاگت سے تین سو فٹ حفاظتی دیوار اور تین سو فٹ چیک ڈیم تعمیر کیا جارہا ہے۔
بعض آزاد ذرائع کے مطابق یہ فنڈ کئی گنا زیادہ ہے مگر ادارہ اسے آٹھاسی لاکھ روپے بتاتا ہے۔یہ حفاظتی دیوار کاغذات میں پلم کنکریٹ منظور ہوا ہے جس میں صرف چالیس فی صد گول پتھر اور ساٹھ فی صد سیمنٹ استعمال ہونا تھا
مگرایک جعلی تنظیم کے ٹھیکدار اسے سو فی صد پتھروں سے بنا رہا تھا اور یوں آکا ہ نے ایک جعلی تنظیم کے ذریعے اس منصوبے میں میں غبن کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس حفاظتی دیوار پر خطیر رقم خرچ ہورہی ہے مگر کام نہایت غیر معیاری اور ناقص ہے جو سیلاب کے ایک ہی ریلے میں بہہ جانے کا خدشہ ہے۔
تنظیم کے صدر اور منیجر جو خود اس کام کی ٹھیکداری بھی کرتے ہیں انہوں نے شروع سے مرحلہ وار تین، تین فٹ پتھروں کا دیوار بناکر اس کے آگے باہر کی طرف صرف دو انچ حالی جگہ چھوڑا ہے۔
اس حالی جگہ کے سامنے شٹرنگ باندھ کر اس میں اور پتھروں کے دیوار کے اوپر تھوڑا سا سیمنٹ کا مسالہ ڈال کر دھوکہ دہی کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پورا دیوار پلم کنکریٹ یعنی سیمنٹ کا بنا ہوا ہے۔
ہماری ٹیم نے جب اس پتھروں کی دیوار کی تصاویر اور ویڈیو آکاہ کے انجینئر اور ریجنل پروگرام منیجر کو دکھائے تو وہ نہایت پریشان ہوئے کہ اب ان کی دھوکہ دہی بے نقاب ہونے والی ہے۔انہوں نے اس پورے دیوار کو مجبورا گرانے کا حکم دیا۔
دیوار کو مسمارکرنے پر جعلی تنظیم کے صدر اور منیجر آگ بگولہ ہوگئے۔
انہوں نے ہمارے نمائندے کے گھر پر کئی غنڈوں سمیت آکر حملہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی۔
ان کی اس حملے اور دھمکی سے چترال کے ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر، ایس ایچ او تھانہ چترال اور قانون نافذ کرنے والے داروں کو بھی آگاہ کیا گیا۔
اس دیوار کو جب مسمار کیا گیا تو اس سے ثابت ہوا کہ پورا دیوار کنکریٹ کی بجائے پتھروں سے بنایا گیا تھا۔
اس سے پہلے بھی آکاہ کے ہنزہ اوس آبنوشی سکیم، ڈولوموچ ڈگ ویل،اور دیگر منصوبے بھی بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔
علاقے کے لوگ اعلیٰ حکام اور ذمہ دار اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آکاہ کے تمام منصوبوں اور کاموں کی تحقیقات کیا جائے کیونکہ سینگور کا یہ سکیم اس کے دفتر سے صرف ایک فرلانگ کے فاصلے پر شہری علاقے میں واقع ہے تو بالائی علاقوں اور دور دراز وادیوں میں ان ترقیاتی کاموں میں کتنا غبن ہوا ہوگا اور وہ کام کتنا ناقص اور غیر معیاری ہوگا جہاں میڈیا ٹیم، انتظامیہ اور عام آدمی کی رسائی بھی مشکل ہے۔
عوام یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ا دارے کو اربوں روپے کا جو فنڈ اور عطیہ آتا ہے اس کی بھی جانچ پڑتال اور ایمانداری سے آڈٹ کیا جائے کہ اتنی خطیر رقم کہاں اور کیسے خرچ ہوتی ہے جس سے لوگوں کی زندگی میں کوئی حاص آسانی پیدا نہیں ہوئی۔
ہماری ٹیم نے جب آکاہ کے ناک کے نیچے اتنے بڑے پیمانے پر ناقص کام اور غبن کرنے کے بابت اس کے انجینئر اور آر پی ایم سے ان کی موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کیا اور ان منصوبوں کی دستاویزات اور فنڈ کی معلومات بھی نہیں دی جس کیلئے باقاعدہ طور پر رایٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت تحریری درخواست بھی دی گئی۔
چترال کے عوام یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ اے کے ڈی این کے دیگر اداروں خاص کر آغا خان ہیلتھ سروس، آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے بھی کئی منصوبے ناکام اور عوام کے ساتھ ان کی زیادتی کی کئی مثالیں موجود ہیں جن کی جانچ پڑتال نہایت ضروری ہے۔