یوسف مستی خان پسرِ کوہ تھا وہ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ مفکر، ایک عالم اور ایک انقلابی مزدور بھی تھا اس کا علم، اس کی فکر اور اس کی محنت عوامی انقلاب کی امانت تھی
تحریر: ریاض رجبی
بلوچستان کی سرزمین بلند و بالا پہاڑوں کی سرزمین ہے اس دھرتی کے بیٹے بہت بہادر اور دلیر ہوتے ہیں، میر چاکر خان رند، نواب خیر بخش مری، عطاءاللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی و دیگر بلوچ سرداران کی طرح سردار یوسف مستی خان بھی ایک بہادر، دلیر، نڈر بے باک اور باہمت شخصیت تھے اسلام آباد ہوٹل میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاس کے موقع پر مجھے پہلی اور آخری بار ان سےملنے کا موقع ملا۔
وہ اپنی دھرتی بلوچستان کے بلند پہاڑوں کی طرح بلند حوصلے اور سوچ کا مالک تھا۔ مجھے یوسف مستی خان کے روپ میں شھید ذوالفقار علی بھٹو کے الفاظ جھلکتے دکھائی دئیے جوکہ انہوں نے بلوچوں کا حسن بیان کرتے ہوئے کچھ یوں لکھے تھے کہ ” بلوچ ایک بہادر باپ اور ایک فخرمند ماں کا بیٹا ہوتا ہے”۔
یوسف مستی خان پسرِ کوہ تھا وہ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ مفکر، ایک عالم اور ایک انقلابی مزدور بھی تھا اس کا علم، اس کی فکر اور اس کی محنت عوامی انقلاب کی امانت تھی، وہ اس میں تھوڑی سی بھی خیانت کرتا تو بلوچستان کا گورنر یا وزیراعلیٰ بن سکتا تھا مگر وہ مظلوم اور محکوم طبقے کا کماندار تھا اور اس نے اس کمانداری کی امانت میں کبھی خیانت نہیں کی بے شک وہ انقلاب کی منزل کا مسافر تھا اس مسافت میں ان سے میں تفصیلی ملاقات کا خواہاں تھا میں انکو اپنے انتخابی حلقے کے دورے کی دعوت دینا چاہتا تھا اور دریائے راوی کے دونوں کناروں پر آباد بلوچ قبائل سے متعارف کرانے کا خواہاں تھا مگر یوسف مستی خان جیسے انسان ہر علاقے، ہر دور اور ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتے ایسے انسان جنم نہیں لیتے ایسے انسان نازل ہوتے ہیں۔ وہ بلوچستان کے پہاڑوں پر آذان انقلاب کی طرح نازل ہوا۔ وہ پسرِ کوہ تھا، وہ محب وطن کمیونسٹ تھا۔
وہ قومی اور طبقاتی جدوجہد کا مسافر ہونے کے ساتھ ساتھ اس جدوجہد کا راستہ تھا سنگم تھا اور منزل بھی تھا۔ اب وہ سرخ سیاست کا سنگ میل ہے۔ یوسف مستی خان
سرخ سلام ، سرخ سلام ،سرخ سلام یوسف مستی خان کی جدوجہد کو سرخ سلام