تحریر: ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
تازہ ترین رپورٹ کے مطا بق اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں اسی کروڑ انسا نوں کو قحط کا سامنا ہے آنے والے مہینوں میں قحط کے سایے مزید انسا نوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں اور سن دو ہزار کا سال غذا ئی قلت کی وجہ سے دنیا کی نصف آبا دی کے لئے قحط کے خطرے کا سال ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ خوراک نے جواعداد و شمار جا ری کئے ہیں ان کی رو سے اس وقت دنیا کے پینتالیس مما لک میں آٹھ سو ملین انسان ایسے ہیں جو بھو کے پیٹ سو تے ہیں سب سے زیا دہ قحط برا عظم افریقہ میں ہے اس کے بعد ایشیا ء کو بھی قحط سالی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
عالمی ما ہرین نے قحط سالی کی وجو ہا ت کا کھو ج لگا تے ہوئے جو اندازے شائع کئے ہیں ان اندازوں کے مطا بق کو رونا کی عالمی وباء، مو سمیا تی تبدیلی، عالمی حدت، خشک سا لی اور ان آفا ت کے ساتھ یو کرین کی جنگ نے عالم انسا نیت کو غذا ئی قلت کے شدید خطرے سے دو چار کیا ہے۔
انٹر نیشنل ما نیٹری فنڈ آئی ایم ایف نے اپنی حا لیہ رپورٹ میں یہ بات منظر عام پر لا ئی ہے کہ توا نا ئی کے بحران اور بازار کے اندر قیمتوں کے اتار چڑ ھا ؤ کا سارا بو جھ غریب طبقے پر پڑ رہا ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے گر نے والوں کی تعداد میں روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے جو قومی حکومتوں کے لئے بھی چیلنج ہے اور عالمی اداروں کے سامنے بھی حل طلب مسلے کی حیثیت سے مو جود ہے۔
سن دو ہزار کا سال غذا ئی قلت کی وجہ سے دنیا کی نصف آبا دی کے لئے قحط کے خطرے کا سال ہو سکتا ہے عالمی ادارہ خوراک نے جواعداد و شمار جا ری کئے ہیں ان کی رو سے اس وقت دنیا کے پینتالیس مما لک میں آٹھ سو ملین انسان ایسے ہیں جو بھو کے پیٹ سو تے ہیں سب سے زیا دہ قحط برا عظم افریقہ میں ہے اس کے بعد ایشیا ء کو بھی قحط سالی کا سامنا ہو سکتا ہے
اگر غذا ئی عدم تحفظ کے آگے بر وقت بندھ نہیں باندھا گیا تو بعید نہیں کہ دنیا میں اٹھار ویں صدی کے قحط سے بھی گھمبیر صورت حال پیدا ہو جا ئے اور سائنس، ٹیکنا لو جی کے اس ترقی یا فتہ دور میں انسا نوں کی بڑی آبادی غذا ئی قلت کی وجہ سے لقمہ اجل بنے اگر ایسا ہوا تو یہ عالمی اداروں کی کار کر دگی پر سوالیہ نشا ن ہو گا۔
خیبر پختونخوا کے تیرہ پہا ڑی اضلا ع میں سیلا ب اور با رشوں کی وجہ سے دو ہزار بائیس کی پوری فصل بر باد ہو گئی ہے اور صو بے کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کو اس سال قحط کی صورت حال کا سامنا ہے بلو چستا ن اورگلگت بلتستا ن میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے یہ وہ علا قے ہیں جہاں بمشکل چار مہینوں کے لئے مقا می انا ج کافی ہو تا ہے۔
اگر غذا ئی عدم تحفظ کے آگے بر وقت بندھ نہیں باندھا گیا تو بعید نہیں کہ دنیا میں اٹھار ویں صدی کے قحط سے بھی گھمبیر صورت حال پیدا ہو جا ئے اور سائنس، ٹیکنا لو جی کے اس ترقی یا فتہ دور میں انسا نوں کی بڑی آبادی غذا ئی قلت کی وجہ سے لقمہ اجل بنے
آتھ مہینوں کی خوراک با ہر سے لا نی پڑتی ہے جو سر کاری گودام کے اناج اور بازاری آٹے کی صورت میں آتی ہے اگر چہ عالمی ادارے نے قیمتوں میں اتار چڑھاؤکی طرف اشارہ کیا ہے لیکن ہمارے ہاں قیمتوں میں اتار کبھی نہیں دیکھا گیا، ہمیشہ چڑھا ؤ ہی نظر آیا ہے ایک سو کلو گندم کی قیمت اڑ ھائی ہزار روپے سے بڑھ کر چھ ہزار روپے ہو گئی ہے۔
بیس کلو گرام آٹا ایک ہزار روپے سے بڑھ کر دو ہزار دو سو روپے کا ہو گیا ہے اور مار کیٹ کا رجحان بدستور چڑھا ئی کی طرف ہے جہاں تک کورونا وبا اور عالمی حدت یا مو سمیا تی تبدیلیوں کا تعلق ہے دونوں بڑی حقیقتیں ہیں اور دونوں نے عالمی معیشت پر گہر ے نقوش مر تب کئے۔
جلتی پر تیل کا کام یو کرین کی جنگ نے دے دیا اس جنگ سے پہلے بہت کم لو گوں کو علم تھا کہ عالمی معیشت میں روس اور یو کرین کا کیا مقا م ہے؟ یو کرین کو نیٹو میں شا مل کرنے کے امریکی قدام کے بعد روس نے یو کرین پر حملہ کر کے بیرونی دنیا کو انا ج کی فراہمی روک دی۔
خیبر پختونخوا کے تیرہ پہا ڑی اضلا ع میں سیلا ب اور با رشوں کی وجہ سے دو ہزار بائیس کی پوری فصل برباد ہو گئی ہے اور صو بے کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کو اس سال قحط کی صورت حال کا سامنا ہے بلو چستان اورگلگت بلتستان میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے یہ وہ علا قے ہیں جہاں بمشکل چار مہینوں کے لئے مقامی اناج کافی ہوتا ہے آٹھ مہینوں کی خوراک با ہر سے لا نی پڑتی ہے
جب امریکہ اور یو رپ کی طرف سے سخت ردعمل آیا تو روس نے جو ابی کاروائی کر تے ہوئے یورپ کے لئے گیس اور تیل کی فراہمی بھی معطل کر دی چنا نچہ یو کرین جنگ نے پوری دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا عالمی ادارے کی رپورٹ میں قحط سالی کی وجو ہات میں یو کرین کا ذکر اس حوالے سے آیا ہے شکر ہے ہم غذا ئی قلت کے جس مسئلے کا بار بار ذکر کر تے آئے تھے اس کی طرف اقوام متحدہ نے بھی اشارہ کیا بقول فیض احمد فیض
ہم نے جو طرز فغان کی ہے قفس میں ایجا د فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے