Baam-e-Jahan

بے تخیل دانشوری


تحریر: عزیز علی داد

آج مارتھا نسوبام کی ایک کتاب "Love’s Knowledge: Essays on Philosophy and Literature

 پڑھ رہا تھا۔گومارتھا کو میں کافی عرصے سے پڑھ رہا تھا,مگر آج اندازہ ہوا کہ ایک دانشور کتنے سارے جہتوں کو اپنے اندر سموتی ہے۔وہ کبھی دانتے، کبھی ہنری جیمز، مارسل پروسٹ، اریس ماڈھوک، کونن ڈائل، لیوںل ٹرلنگ، افلاطون، ہیلری پٹنم، کارل مارکس،کانٹ، مارکس، نطشے، عیسایت وغیرہ کی تعبیر کر رہی ہوتی ہے۔

ہم میں فکر مفقود ہوچکی ہے۔ اس لئے افکار کے مردے لیبلز کے صورت میں رھ گئے ہیں، اور ہم ان مردوں کو اپنے ذہنی کندھوں پر اٹھائے دانشوری کا بھرم مار رہے ہیں۔اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ فلاں دہریہ ہے،  ملحد ہے، وہ روایتی ہے، یہ ترقی پسند ہے، وہ مذہبی ہے، وہ لیفٹسٹ ہے، وہ سرمایہ دار ہے اور فلاں فلاں۔

جتنے ان کے پاس افکار کی تاریخ کے ماخذ ہیں، اتنے ہمارے مشاعروں کے سامعین ہوتے ہیں۔ان کے ہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پہ پانی پیتے ہیں۔ اس کوادبی تنقید میں تخیل کی لچک کہا جاتا ہے۔ لگتا ہے ہمارے ہاں تضادات کو ملانے کی تخیلی لچک ختم ہوچکی ہے۔ جب سوچنے کو کچھ نہ ہو تو خالی نعرے اور لیبلز رھ جاتے ہیں۔

اس پینٹنگ میں پیتھاگورس اور ابنزشد کو اپنے شاہکار ایتھنز کے سکول میں ساتھ دکھا رہا ہے

اب ہم میں فکر مفقود ہوچکی ہے۔ اس لئے افکار کے مردے لیبلز کے صورت میں رھ گئے ہیں، اور ہم ان مردوں کو اپنے ذہنی کندھوں پر اٹھائے دانشوری کا بھرم مار رہے ہیں۔اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ فلاں دہریہ ہے،  ملحد ہے، وہ روایتی ہے، یہ ترقی پسند ہے، وہ مذہبی ہے، وہ لیفٹسٹ ہے، وہ سرمایہ دار ہے اور فلاں فلاں۔

ہمارے ہاں  مذہبی لوگ تو دور کی بات، ملحد بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ان سب کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستان میں دانشور کم اور دانشوری کا زعم زیادہ ہے۔اب پتا چل رہا ہے کہ پاکستانی دانشور کے پاس جب کچھ کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ہے تو وہ ہر ایک کے خلاف بولتا ہے۔

جب آپ کے پاس بولنےکو کچھ نہ ہو تو اپنا منہ بند رکھیں۔ بغیر تفکر کی تحریر گٹر کا ڈھکنا ہوتی ہے جوکھلتے ہی ذہن میں تعفن پھیلاتی ہے۔

سبق:جب آپ کے پاس بولنےکو کچھ نہ ہو تو اپنا منہ بند رکھیں۔ بغیر تفکر کی تحریر گٹر کا ڈھکنا ہوتی ہے جوکھلتے ہی ذہن میں تعفن پھیلاتی ہے۔

پس نوشت: یہ مشاہدہ مذہبی اور سیکولر دونوں قبیل کےدانشوروں پر لاگو ہوتا ہے۔اگر آپ کے پاس کوئی اور درجہ ہو تو میری لاعلمی میں علمی اضافہ کریں۔

پینٹگ از رافیل: اس میں پیتھاگورس اور ابنزشد کو اپنے شاہکار ایتھنز کے سکول میں ساتھ دکھا رہا ہے۔

مصنف کے بارے میں:

عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ عزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے