Baam-e-Jahan

زیڈ اے سلہری سے اوریا مقبول جان تک


پبلک میں عورت کے لئے “ گھر یا گور” اور  بے پردہ عورت کے منہ پر  تیزاب “ ایک زمانے میں سلہری کا  مشہور مانترہ بن چکا تھا،  وہی سلہری  جس نے اپنی بیٹی سارہ کو امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں انگریزی پڑھانے بھیجا۔

تحریر: رشید یوسفزئی


اپنی فیشن ایبل بیٹیوں کو  صرف انگریزی  خواں رکھنے ، برطانوی اشرافیہ کے سٹائل میں سگار و  وہسکی    پینے کیساتھ زرد و گلابی  برا اور منی سکرٹ پہننے کے  فریش فیشن اور نزاکتیں  سکھانے والے زیڈ اے سلہری اپنے دور کے اوریا مقبول جان  تھے۰ ملٹی پل پرسنلٹی ڈس آرڈر کا مرض ان کا فیشن و پیشہ تھا۰انگریز بیوی کےساتھ   اپنی بیٹی سارہ سلہری کی تربیت مکمل برٹش ریت و رواج پر کرتے تھے مگر  کسی دوسرے پاکستانی کی روش میں روشن فکری ، آزاد خیالی، لبرل و سیکولر اقدار  کا شائبہ  دیکھ کر اس کو قابل گردن زدنی قرار دیتے،   سر عام کہتے کہ پاکستان کی بقا صرف  سخت گیر اسلام میں ہے۰  سرد جنگ کے دوران پختون  خوا کے افغان پناہ گزین کیمپس  سرکاری دوروں پر  آئے تھے۰ گلبدین و رسول سیاف و یونس  خالص جیسے درندوں کے ساتھ   شمشتو  کیمپ و جلوزئے کیمپ دوروں کے دوران کوئی معصوم گیلم جم لڑکی کھلے  چہرے جاتے ہوئے دیکھی ۰ مذکورہ کرائے کے قاتلوں کو  نصیحت کی “ عورت کیلئے یا گھر ہے یا گور۰  اس کی عزت فقط  برقعہ میں۰  یہ افغان روایت بھی ہے اور  شریعت بھی۰    جو بھی چہرہ برقعے سے باہر نظر ائے اسکی تنہا علاج تیزاب ہے۔

پبلک میں عورت کے لئے “ گھر یا گور” اور  بے پردہ عورت کے منہ پر  تیزاب “ ایک زمانے میں سلہری کا  مشہور مانترہ بن چکا تھا،  وہی سلہری  جس نے اپنی بیٹی سارہ کو امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں انگریزی پڑھانے بھیجا۔

نہ ڈیرہ دون ، نہ برن ہال اور نہ کاکول کی تربیت کی حاجت تھی،  نہ کسی نیشنل ڈیفنس و رکشاپ میں شمولیت کی۰   وردی پہننے کا طریقہ   بھی نہ اتا تھا۰ بس  اچھی انگریزی   اتی تھی۰ شدت پسند  مذہبی و جہادی پروپیگنڈہ تکینک کے ماہر تھے۰  سی  آئی اے اور سعودیوں  سے راتب لینے کیلئے    کمپنی  کو ہنگامی  بنیادوں پر ایسے ہی ایک پروپگنڈسٹ  اور سپن ڈاکٹر spin doctors کی ضرورت تھی۰  خفیہ والوں نے پاکستانی صحافت کی  اصطبل  سے اسی بھاڑے کے ٹٹو کو چنا۰ نیم شب کو آرمی ہاؤس بلائے گئے۰ مرد مومن، مرد حق سے ملاقات ہوئی، بے وقعت  عوام کو دوسرے دن  خبروں سے پتہ چلا کہ

“ زیڈ اے سلہری  آئی ایس پی آر کے  ترجمان تعینات”

تماشا یہ کہ  سویلین و صحافی ضیاء الدین سلہری  کی  بطور ترجمان پاک فوج تعیناتی کی شہ سرخی کیساتھ جس  تصویر میں ان کی دیدار عوام کو  کرائی گئی  تھی اس میں وہ   فوجی وردی میں ملبوس تھے!

کمپنی کے  حسن کرشمہ ساز کی کرشمہ سازیاں۰

ایڈمرل ایم ایم شریف کا تھا۰  ریٹائرڈ ہوکر  چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن بنائے گئے۰ حکومت کی وقتی پالیسی کے تحت اس کو صرف  مذہبی شدت پسند لوگوں کو سی ایس پی افسران بھرتی کرانا تھا۔۔۔ اور لبرل و سیکولر سی ایس ایس امیدواران کا راستہ روکنا تھا۔

سلہری عوام میں صحافی سے زیادہ  مذہبی سکالر اور مولوی   ریکگنائز ہونے کے  شوقین تھے۰  جہاد بارے قران کے تمام آیات ازبر تھے۰  آئی ایس پی آر کے روٹین پریس کانفرنس میں پوری سورہ انفال انگریزی ترجمہ کیساتھ سناتے،   صحافیوں کے سوالات کے جوابات سورہ  انفال و سورہ توبہ کے آیات سے دیتے ۰  ہر آیت عربی  میں پڑھ کر خوبصورت انگریزی میں  برجستہ ترجمہ کرتے۔

سلہری کا ایک رٹا رٹایا جملہ تھا : “افواج پاکستان  پر اٹھائے گئے ہر سوال اور ہر اعتراض کا جواب خالق کائنات نے  اپنے مقدس کتاب میں دیا ہے!”   پھر  ملٹری پالیسی و بجٹ پر ہر سوال کے جواب میں ایک آیت  تلاوت کرتے اور انگریزی میں ترجمہ کرتے۔

اس کے بعد شک یا مزید سوال کرنے کا جرات و جسارت کون کرسکتا تھا!

کم و بیش  یہی  طریقہ واردات اس کے ھم عصر ایڈمرل ایم ایم شریف کا تھا۰  ریٹائرڈ ہوکر  چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن بنائے گئے۰ حکومت کی وقتی پالیسی کے تحت اس کو صرف  مذہبی شدت پسند لوگوں کو سی ایس پی افسران بھرتی کرانا تھا۔۔۔ اور لبرل و سیکولر سی ایس ایس امیدواران کا راستہ روکنا تھا۔ ایڈمرل شریف صاب کے سی ایس ایس انٹرویوز  کی مشہور فارمیٹ تھی:

غزوہ ھند   والی   حدیث  معلوم ہے ؟

دعائے قنوت بسم اللہ  کیساتھ سنائیں۰

افواج پاکستان کا ذکر   کن کن قرآنی آیات سے ثابت ہوسکتا ہے؟

پاکستان کی حفاظت اور ترقی و خوشحالی کا خدا ضامن ہونے پر آپ کا پکا ایمان ہے؟

جو امیدوار ان سوالات کا جواب بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرکے صدق اللہ العظیم کیساتھ ختم کرکے دے سکتا وہ ڈی ایم جی و  پولیس میں  سلیکٹ ہوتے۰ باقی بیچارے گھر کی راہ لیتے۔

آج کل ملک کے پالیسی  سازی کے عہدوں پر قابض  اکثر سنئیر ترین  بیوروکریٹس وہی ہیں جن کو  ایڈمرل ایم ایم شریف نے دعائے قنوت اور ایمان مجمل سنانے  کی قابلیت پر منتخب کیا۔

 قرآنی آیات سے  اپنی تقدس،  حاکمیت، برتری، آقائی اور عوام کو غلامی پر راضی رکھنا پریٹورین گارڈز  Praetorian guards کی دیرینہ اور مجرب  نسخہ ہے، معاشیات۔ ومنجمنٹ کونسے بلا ہیں؟ ملک تو بس  چند ایک قرآنی ایات سے ہی بہتر چلائے  جاسکتے  ہیں، اور واقعی  مملکت خدا بخش روز اول سے ایات  قرآنی ہی  کی برکت سے چل رہی ہے، جو ملحدین قران کو معجزہ  نہیں مانتے ان  سے پوچھیں عقل بڑھی ہے کہ سانڈ؟

کل پرسوں ملک کے سپاہ سالار اعلی و ظل سبحانی جنرل عاصم منیر ایدہ اللہ کی ویڈیو کلپ سنی ،

کسی  جگہ سویلین مجمع سے خطاب کر رہے ہیں، بار بار صبر و برداشت کے قرآنی آیات لحن کیساتھ پڑھ  رہے ہیں، زیڈ اے سلہری یاد دلایا،  فرق یہ تھا کہ سلہری انگریزی ترجمہ برجستہ کرتے اور  موجودہ حافظ و مولوی سپہ سالار  کاغذ پر لکھا ہو ا دیکھ کر ترجمہ پڑھاتے ہیں، اتنے عرصے میں نہ آقا  کے نفسیات بدلے ، نہ غلاموں کے۔

مذکورہ ویڈیو کلپ میں حافظ جی نے ملک کے معاشی امور پر  قرآنی ایتوں کی تلاوت سے اپنی اقتصادی مہارت ثابت کی، اس ایک آیت پر مومنین کو خصوصی توجہ دلانے کی کوشش  کی کہ :

و لیبلونکم  بشئ من الخوف والجوع و نقص من الاموال و الانفس الثمرات پڑھ کر ترجمہ کیا کہ ہم آپ کو خوف ، بھوک اور مالی مشکلات الخ سے آزمائیں گے۔

حیران تھا کہ یہ اب ایک ملک کا فوجی سربراہ ہے یا کوئی مذہبی واعظ و  مولوی؟ خیال آیا کہ  قران نازل ہونے والی ملک سعودی عرب کا آرمی چیف اگر آج کسی ملٹری پریڈ یا کسی  سول خطاب میں اسطرح ایک آیت پڑھنے ، یا قران کا محض نام لینے کی جرات کرے تو کیا حشر ہوگی؟ لمحے بعد بے چارے کے لاش کا بھی  شاید پتہ نہ ہو۔

اس سے بھی زیادہ اذیت ناک تعجب وہاں پر موجود سامعین اور سوشل میڈیا پر دن رات مصروف کروڑوں پاکستانیوں کے سوال کرنے کی استعداد پر ہوا۰ کسی نے یہ پوچھنے کی جرات و جسارت نہ کی کہ :

عالی جاہ، جان کی امان ہو تو  پوچھ سکتے ہیں  کہ یہ  بھوک اور خوف اور مالی مشکلات سے  آزمانے جانے کے  آیات صرف ہم بھوک  سے مرنے والے بدبخت عوام  کیلئے نازل ہوئے ہیں   یا آپ کرنیلوں جرنیلوں کیلئے بھی؟ رات کو بھوکے سونے پر صبر کی تلقین  کیلئے جو ارشادات خداوندی آپ سنا رہے ہیں یہ صرف آپ کے پنجے میں گرفتار کروڑوں   فاقہ کش غلاموں کے فاقہ زدہ بچوں  کیلیے اترے ہیں یا لندن و پیرس میں ملین ڈالرز کے سپورٹس کارز میں عیش اڑانے والے آپ کے شہزادوں کیلئے بھی ؟

کوئی وزیر اعظم صاب کو بتائیں کہ آپ  پرائم منسٹر ہاؤس منتقل ہونے کی رات تک  کوئٹہ کینٹ کے  محفوظ ترین مقام پر ایک پرتعیش سرکاری بنگلے میں  سالوں  سے مقیم تھے۰  نہ کبھی آپ کرائے  سے باخبر رہے اور نہ گیس ، پانی اور  بجلی کے بلوں سے،،،عوام جانتی ہے کہ آپ کا کرایہ اور بلز ایک مقدس ادارہ انہی کے منہ سے نوالہ چھین کر ادا کرتی رہی۔ لیکن بے بس و عاجز عوام  سوال کس سے  اٹھائیں اور ان کے سوال کو اہمیت کون دیتا ہے۔۔

حافظ سپہ سالار کے مذکورہ کلپ سے سکرول ڈاؤن ہوا تو  وزیر اعظم  صاحب بہادر کا بیان نظر سے گزرا کہ

“ مہنگائی کوئی مسلہ نہیں۰ ملک مخالف لوگ  ویسے ہی تشویش  پیدا کر رہے ہیں! “

سپہ سالار کے دست نشاندہ بٹ مین وزیر اعظم عقل کی دوڑ میں اپنے باس سے بھی ہزار کلومیٹر آگے نکلے ۔

فرانسیسی ملکہ میری انٹوانیٹ سے ایک  واقعہ بے جا منسوب ہے کہ فرنچ عوام بھوک کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس کے محل کے سامنے آئے  تو ملکہ معظمہ نے پوچھا “ روٹی نہیں ملتی تو تم کیک  کیوں نہیں کھاتے؟” یہی مشہور واقعہ بے ساختہ یاد ایا۔

بٹ مین صاب کو کوئی بتائ مہنگائی کا زور وہ جانتے ہیں جو سارا دن مزدوری کرکے بھی  ایک روٹی اور دو  پیاز کمانے کی استطاعت نہیں رکھتے، روح و بدن نچوڑنے والے مہنگائی کا جبر وہ غریب جانتے ہیں جن کیلئے آئندہ ماہ ایک دوزخ نما گھر کا کرایہ اور  چوبیس  میں بائیس گھنٹے غائب بجلی کے ہزاروں روپیہ بل  ادا کرنے ہوتے ہیں۔

کوئی وزیر اعظم صاب کو بتائیں کہ آپ  پرائم منسٹر ہاؤس منتقل ہونے کی رات تک  کوئٹہ کینٹ کے  محفوظ ترین مقام پر ایک پرتعیش سرکاری بنگلے میں  سالوں  سے مقیم تھے۰  نہ کبھی آپ کرائے  سے باخبر رہے اور نہ گیس ، پانی اور  بجلی کے بلوں سے،،،عوام جانتی ہے کہ آپ کا کرایہ اور بلز ایک مقدس ادارہ انہی کے منہ سے نوالہ چھین کر ادا کرتی رہی۔ لیکن بے بس و عاجز عوام  سوال کس سے  اٹھائیں اور ان کے سوال کو اہمیت کون دیتا ہے۔۔

اور ہاں پیارے وزیراعظم جی  ، آپ تو عوام سے دور کوہ اولپمس پر مقیم دیوتاؤں کے بندے ہیں آپ کو مہنگائی  کے احساس و ادراک کب ہوسکتے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے