چترال تزویراتی طور پر ایک حساس علاقے میں واقع ہے، جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور صرف واخان کوریڈور اسے تاجکستان سے الگ کرتا ہے۔ چین کا سنکیانگ علاقہ بھی اس کے آس پاس ہے
رپورٹ: بام جہاں
کے پی کا چترال خطہ 6 ستمبر کو سرحد پار سے ہونے والی ہلاکت خیز دراندازی کی وجہ سے ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں رہا ہے جس میں مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے ایک بڑے گروہ نے افغانستان میں واپس دھکیلنے سے پہلے پاکستانی ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا۔
اگرچہ حکام نے کوئی تعداد نہیں بتائی ہے، لیکن چھاپہ ماروں کی تعداد ‘سینکڑوں’ میں بتائی جا رہی ہے۔ عبوری وزیر خارجہ کا اصرار ہے کہ یہ ایک "الگ تھلگ واقعہ” تھا اور افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے اس حملے کی منظوری نہیں دی تھی، جب کہ دفتر خارجہ نے اس منتر کو دہرایا ہے کہ پاکستان کے تحفظات سے کابل میں متعلقہ حلقوں کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ حکومتی اہلکار یہ تاثر دے رہے ہوں کہ خطے میں سب کچھ ٹھیک ہے، لیکن حملے کی صحیح تفصیلات کے بارے میں مزید معلومات درکار ہیں، جبکہ مقامی لوگوں کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ ریاست ان کی جان و مال کی حفاظت کرے گی۔
چترال تزویراتی طور پر ایک حساس علاقے میں واقع ہے، جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور صرف واخان کوریڈور اسے تاجکستان سے الگ کرتا ہے۔ چین کا سنکیانگ علاقہ بھی اس کے آس پاس ہے۔
یہ اسے بین الاقوامی جہادیوں کے لیے ایک پرکشش مقام بناتا ہے جو اپنی کارروائیوں کو بڑھانا چاہتے ہیں، حالانکہ چترال خود دہشت گردی کی سرگرمیوں سے بڑی حد تک محفوظ رہا ہے۔
مزید یہ کہ یہ خطہ ثقافتی، لسانی اور نسلی اعتبار سے کے پی کے باقی حصوں سے الگ ہے۔ جہاں سوات اور سابقہ فاٹا نے دہشت گردی کی ابتدائی لہروں کے دوران سب سے زیادہ نقصان اٹھایا، لیکن چترال نے اس طوفان کا مقابلہ کیا۔
گزشتہ دنوں جس علاقے پر حملہ ہوا وہ کلاش لوگوں کی روایتی زمینوں کے قریب ہے اور چترال میں اسماعیلی آبادی بھی کافی تعداد میں رہائش پزیر ہے۔
لہٰذا، ریاست کو اس علاقے میں سیکیورٹی بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی اور فرقہ وارانہ عسکریت پسند اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگرچہ افغانستان سے چھوٹے پیمانے پر دراندازی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، آخری بڑی دراندازی 2011 میں ہوئی تھی جب مبینہ طور پر دہشت گردوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے حملے کیے تھے، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے۔
پاکستان بالخصوص چترال میں دراندازی کے خلاف افغان طالبان سے ’مزید کام‘ کرنے کی محض توقع کرنا کافی نہیں ہوگا، خاص طور پر جب یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ طالبان کے کچھ دھڑے دراصل پاکستان کے اندر حملوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
فوج کے لیے بہترین آپشن یہ ہے کہ وہ تمام حساس سرحدی علاقوں کو فولادی سیکیورٹی فراہم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی بھی گروپ دوبارہ پاکستان کی سرزمین کی خلاف ورزی نہ کر سکے۔
چترال میں ایک جرگے نے آرمی چیف کو علاقے کا دورہ کرنے کا کہا ہے، اور حکام سے افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ افغان طالبان نے سرحدی علاقے سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس عمل کو تیز کیا جانا چاہیے تاکہ ملک کی سرحدوں پر موجود اس خطرے کو بے اثر کیا جا سکے۔
سرحدوں پر دہشت گردی کے خطرے سے بھرپور طریقے سے نمٹا جانا چاہیے۔ ماضی میں شرپسند عناصر کو پاکستانی سرزمین پر جاگیریں قائم کرنے کی اجازت دے کر ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس غلطی کو کبھی نہیں دہرانا چاہیے۔
نوٹ: یہ فیچر روزنامہ ڈان (انگریزی) میں شائع ہوا جسے بام جہاں کے ایڈیٹر کریم اللہ نے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کیا