Baam-e-Jahan

تاریخ  بلتستان ایک مفید مطالعہ

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

تاریخ نویس کا کمال یہ ہے کہ وہ موضوع پر زور دار گرفت رکھتا ہے اور جذباتیت سے مغلوب نہیں ہوتا اپنی ذات اور اپنی پسند یا اپنی ناپسند کو انداز بیان پر اثر انداز ہونے نہیں دیتا، جلد اول کی ابتدا میں ایسے مذہب کا ذکر ہے جو تبت، لداخ اور بلتستان کامقامی مذہب تھا 105 قبل از مسیح میں اس کو مقامی دھرم کے طور پر رواج دیا گیا اس کانام بون مت یا پونچھوس بتایا جاتا ہے اس کے پیرو مظاہر فطرت مٹی، پہاڑ، دریا اور چاند تاروں کی پرستش کرتے تھے۔ اس کی بنیاد میبوچے نے رکھی تھی جو دیو پریوں اور جن بھوتوں کوقابو میں لانے کاماہر تھا۔

تحریر: ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی


تاریخ کی کتابوں میں دو خامیاں ہوتی ہیں ایک خامی یہ ہے کہ سارا مواد مرے ہوئے لوگوں پر ہوتا ہے وہ کسی بات کی تصدیق یا تردید نہیں کرسکتے دوسری خامی یہ ہے کہ تاریخ خود کو نہیں پڑھواتی جبری طور پر پڑھنا ہوتا ہے اور جبر کے زور پر بہت کم لوگ پڑھتے ہیں۔

 غلام حسن حسنو کی لکھی ہوئی تاریخ  بلتستان دونوں ظاہری خامیوں سے پاک ہے۔ مصنف نے اس کو جان بوجھ کر منصوبہ بندی کے تحت 3 حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے دو جلدیں ایسی ہستیوں کے بارے میں ہیں جو مر کر بھی زندہ و جاوید ہیں، کتاب کی خوبی یہ ہے کہ افسانہ شاعری اور ناول کی طرح خود کو پڑھنے کی دعوت دیتی ہے جب تک قاری پڑھ کر آخری صفحے کو پلٹ نہ دے کتاب ہاتھ سے نہیں چھوٹتی۔

”چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی“ غلام حسن حسنو کو ان کی ادبی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ملا ہے اس لئے ان کی تحریروں کا معتبر اور مستند ہونا مسلمہ امر ہے۔

یہ بھی پڑھئے: آرزوئے سحر ڈیجیٹل کتاب

یہ بھی پڑھ لیں: موسمی پیشگوئی

پہلی جلد بلتستان کی دینی و روحانی تاریخ پر ہے، دوسری جلد میں بلتستان کی سیاسی اور انتظامی تاریخ کا احاطہ

کیا گیا ہے۔ تیسری جلد کو بلتستان کی علمی وادبی تاریخ کے مطالعے کے لئے وقف کیا گیا ہے مواد کی یہ ترتیب بجا خود ایک تخلیقی عمل ہے اور یہ تخلیقی عمل کتاب کے ہر صفحے سے عیاں ہوتا ہے۔

 مصنف کا قلم ہر واقعے کو تخلیقی کسوٹی پر رکھتا ہے اور تخلیقی طور پر نیا اسلوب اختیار کرکے واقعات کو پرکشش اور جاذبیت سے بھرپور رنگ دے دیتا ہے۔

تاریخ نویس کا کمال یہ ہے کہ وہ موضوع پر زور دار گرفت رکھتا ہے اور جذباتیت سے مغلوب نہیں ہوتا اپنی ذات اور اپنی پسند یا اپنی ناپسند کو انداز بیان پر اثر انداز ہونے نہیں دیتا، جلد اول کی ابتدا میں ایسے مذہب کا ذکر ہے جو تبت، لداخ اور بلتستان کامقامی مذہب تھا 105 قبل از مسیح میں اس کو مقامی دھرم کے طور پر رواج دیا گیا اس کانام بون مت یا پونچھوس بتایا جاتا ہے اس کے پیرو مظاہر فطرت مٹی، پہاڑ، دریا اور چاند تاروں کی پرستش کرتے تھے۔ اس کی بنیاد میبوچے نے رکھی تھی جو دیو پریوں اور جن بھوتوں کوقابو میں لانے کاماہر تھا۔

اس مذہب کے مبلغین میں پوتی گونگیال کانام مشہور ہے جو105 قبل از مسیح سے تعلق رکھتا تھا اس کے بعد زرتشت اور مجوسیت کا ذکر ہے پھر بدھ مت اور لاما ازم کا بیاں آگیا ہے۔

مصنف نے تاریخی آثار و شواہد کے حوالوں سے مواد کومزین کیا ہے۔ اشاعت اسلام کاباب آٹھویں صدی ہجری بمطابق چودھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے ابتدائی مبلغین کشمیر اور ترکستان کی طرف سے آئے میرسید علی ہمدانی 783ھجری میں بلتستان آئے ان کو امیر کبیر اور شاہ حمدان کے القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد سید محمد نور بخش ؒ 850 ہجری میں بلتستان وارد ہوئے۔  اس سلسلے کاتیسرا مبلغ میر شمس الدین عراقی تھا ان کا زمانہ911 ہجری بمطابق 1505ء قرار دیا جاتا ہے۔

اس تناظر میں نور بخشی، اہل تشیع اور اہل سنت والجماعت کے تینوں مکاتب فکر پروان چڑھے،

ڈوگروں کے خلاف آخری معرکے میں قلعہ کھربچو کا محاصرہ، ڈوگرہ فوج کی پسپائی اور سکردو کے قلعے پر پاکستانی پرچم لہرانے والے چترالی مجاہدین کے ساتھ ان کے کمانڈر کرنل متاع الملک کا ذکر نہیں کیا گیا یہ تشنگی رہے گی۔

تاریخ بلتستان کی جلد دوم میں چینی اقتدار، تبتی اقتدار اور مقامی قبائل کی حکومتوں کا ذکر ہے جو قبل از مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ مقامی حکمرانوں میں مقپون، اماچہ اور یبگو مشہور خاندان گذرے ہیں یہ دور سترھویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور کے نامور حکمرانوں میں علی شیرخان انچن کانام آتا ہے جس نے بلتستا ن کو متحد کرکے کشمیر، چین اور تبت کی طرف سے ہونے والے حملوں سے محفوظ کیا۔

اس حصے میں ڈوگروں کے خلاف جدوجہد کاذکر ہے اور مقامی راجاؤں کی طرف سے لگائے گئے ٹیکسوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ ڈوگروں کے خلاف آخری معرکے میں قلعہ کھربچو کا محاصرہ، ڈوگرہ فوج کی پسپائی اور سکردو کے قلعے پر پاکستانی پرچم لہرانے والے چترالی مجاہدین کے ساتھ ان کے کمانڈر کرنل متاع الملک کا ذکر نہیں کیا گیا یہ تشنگی رہے گی۔

کتاب کے جلد سوم میں علمی اور ادبی روایات کوجمع کیا گیا ہے دنیا کی سب سے بڑی داستان کیسر داستان بلتی زبان میں ہے جسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ یہ 12 ابواب پر مشتمل ہے اور اس میں 7000 اشعار ہیں۔

 اردو، چینی، تبتی اور انگریزی میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔ اس حصے میں سولہویں صدی سے لے کر اب تک بلتی زبان میں نثر اور نظم کے اصناف، ناول، افسانہ، تنقید، تحقیق، ترجمہ، مرثیہ، غزل وغیرہ پر ہونے والے کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلتی ادب کا وافر حصہ روحانیات کے لئے وقف ہے قرآن پاک کا بلتی ترجمہ بھی ہو چکا ہے تاریخ  بلتستان اپنی بڑی خامیوں کے باؤجود علاقائی تاریخ پر قابل قدر کاوش ہے۔

مصنف کے بارے میں :

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی چترال سے تعلق رکھنے والا ماہر تعلیم، محقق اور کالم نویس ہے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا ہے۔ وہ ملک کے نامور اور موقر اخبارات کے لئے ریگولر بنیادوں پر کالم لکھتے ہیں۔

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے