Baam-e-Jahan

قومی اسمبلی کا حلقہ این  اے ون، چترال،

اظہر علی

الیکشن 2024خیبر پختونخوا کے اضلاع کا حلقہ وار جائزہ

قومی اسمبلی کا حلقہ این  اے ون، چترال، الیکشن 2024 میں مد مقابل کون کون ہوں گے۔؟

این اے ون (سابقہ این  اے 24، این  اے 32)ماضی میں شہزادہ محی الدین مرحوم  4 مرتبہ منتخب ہوچکے ہیں،

1988کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی چیرپرسن بیگم نصرت بھٹو این اے  24 سے الیکشن جیت چکی تھی،

پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت آصفہ بھٹو کو انتخاب لڑانے کی خواہاں، افتخار الدین مسلم لیگ ن کے امیدوار ہوں گے،

جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر مولانا عبدلااکبر چترالی،جبکہ تحریک انصاف ابھی تک اپنا امیدوار سامنے نہیں لائی ہے،

حلقے پر مذہبی جماعتوں کا اثر، نوجوانوں میں پی ٹی آئی مقبول، مسلم لیگ ن کے افتخار الدین بھی مضبوط امیدوار،

تحقیق و تجزیہ: اظہر علی


قومی اسمبلی کا حلقہ این  اے ون چترال ضلع چترال بالا اور چترال پائیں پر مشتمل خیبر پختونخو کا رقبے کے لحاظ  سے سب سے بڑا حلقہ ہے، این اے ون کے نیچے خیبر پختونخوا اسمبلی کے دو صوبائی حلقے پی کے ون چترال 1 (چترال بالا) اور پی کے 2 (چترال پائیں)  آتے ہیں، قومی اسمبلی کا یہ حلقہ جو 2002 کے الیکشن سے پہلے این اے  24 اور  2013کے انتخابات تک این اے 32کہلاتا تھا، میں کل آبادی  2023کے مردم شماری کے مطابق 515935 ہیں چترال  بالا 195528، چترال پائیں 320407) افراد پر مشتمل ہیں، قومی اسمبلی کے حلقے این اے ون سے ماضی میں منتخب ہونے والے نامور سیاسی شخصیات میں بیگم نصرت بھٹو1988 (بعد آزاں ضمنی الیکشن میں سید عبدالغفور شاہ) کے علاوہ مرحوم شہزادہ محی الدین  4 مرتبہ (1985,1990,1997,2008) جبکہ مولانا عبدالرحیم مرحوم 1993، مولانا عبدالاکبر چترالی (2002,2018) جبکہ شہزادہ افتخار الدین 2013کے الیکشن میں منتخب ہو چکے تھے۔

 اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقوں سے مختلف ادوار میں منتخب نمایاں سیاسی شخصیات میں سابق صوبائی وزیر سلیم خان،  سابق صوبائی مشیر سعید احمد خان، سید سردار حسین، مرحوم زین العابدین، مولوی محمد ولی، غلام محمد آف بونی  اور مولانا غلام محمد شامل ہیں۔

سیاسی طور پر چترال کے عوام کی ایک بڑی تعداد طویل عرصے تک سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی اور سماجی مساوات کے نعرے سے متاثر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ضیا الحق کے انتقال کے بعد ہونے والے پہلے جماعتی انتخابات میں چترال کے قومی اسمبلی کے حلقے سے پیپلز پارٹی کی اس وقت کی چیرپرسن بیگم نصرت بھٹو واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں پیپلز پارٹی کے نظریاتی ووٹ بنک میں چترال (موجودہ چترال بالا اور چترال پائیں) کمی آئی ہے، وہیں مذہبی جماعتوں کی ووٹ بنک میں اضافہ بھی ہوا ہے۔

سیاسی طور پر چترال کے عوام کی ایک بڑی تعداد طویل عرصے تک سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی اور سماجی مساوات کے نعرے سے متاثر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ضیا الحق کے انتقال کے بعد ہونے والے پہلے جماعتی انتخابات میں چترال کے قومی اسمبلی کے حلقے سے پیپلز پارٹی کی اس وقت کی چیرپرسن بیگم نصرت بھٹو واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی،

 ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنے والے امیدواروں نے 2002کے انتخابات میں مخالف سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ دیا تھا۔ ضلع چترال کی سیاست  میں اہم کردار طویل عرصے تک سابق وزیر مملکت شہزادہ محی الدین مرحوم کا بھی رہا ہے، 1983 کے بلدیاتی انتخابات کے زریعے چترال کے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والے شہزادہ محی الدین  بعد آزاں مقامی سطح پر اپنا مضبوط سیاسی دھڑا قائم کرنے میں کامیاب رہے اور اپنی زاتی تعلقات کے بل بوتے پر 4 مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے تھے، شہزادہ محی الدین مرحوم نے اپنی سیاسی زندگی کا بیشتر عرصہ مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم پر گزارا، اس دوران وہ 1991 سے جولائی 1993 تک نواز شریف کی کابینہ میں سیاحت کے وزیر مملکت کے عہدے پر بھی فائز رہے، وزیر مملکت بننے سے پہلے مرحوم میر افضل خان کی نگران صوبائی کابینہ میں صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔

جماعت اسلامی کے مرحوم رہنما مولانا عبدالرحیم چترالی 1993کے قومی الیکشن میں این اے سے 24 سے کامیاب ہوئے تھے، بعد آزاں ان کے بھتیجے مولانا عبدالاکبر بھی ایم ایم کے متفقہ امیدوار کے طور پر 2002کے الیکشن میں اور دوسری مرتبہ مقامی سطح پر جماعت اسلامی اور جمیعت العلمائے اسلام کے اتحاد کے زریعے 2018کے الیکشن میں تحریک انصاف کے یلغار کے باجود قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

 2013کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل چترال کی سیاست میں نیا اضافہ تحریک انصاف کی شکل میں ہوا، اگرچہ تحریک انصاف 2013 اور 2018کے انتخابات میں زبردست عوامی تائید کے باجود اپنے امیدوار قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایوانوں تک نہ پہنچا سکی، لیکن اس کے باجود چترال کے عوام کی بڑی تعدا د جس میں نوجوان ووٹرز کی اکثریت ہیں، آج بھی تحریک انصاف اور عمران خان کا دم بھرتے ہیں، اور فروری 2024کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی  اور جماعت اسلامی کے امیدواروں کاتحریک انصاف کے امیدواروں سے سخت مقابلے کی توقع ہے۔

قومی اسمبلی کے حلقے این اے ون سے ماضی میں منتخب ہونے والے نامور سیاسی شخصیات میں بیگم نصرت بھٹو1988 (بعد آزاں ضمنی الیکشن میں سید عبدالغفور شاہ) کے علاوہ مرحوم شہزادہ محی الدین  4 مرتبہ (1985,1990,1997,2008) جبکہ مولانا عبدالرحیم مرحوم 1993، مولانا عبدالاکبر چترالی (2002,2018) جبکہ شہزادہ افتخار الدین 2013کے الیکشن میں منتخب ہو چکے تھے۔

مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سابق رکن قومی اسمبلی افتخار الدین امیدوار ہوں گے، اب تک کی صورت حال کے مطابق جے یو آئی ایف اس نشست پر مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کرے گی۔

 پیپلز پارٹی نے ابھی تک اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے، البتہ شنید ہے کہ بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری اس حلقے سے الیکشن لڑنا چاہتی ہے، اور اگر کسی وجہ سے آصفہ بھٹو یہاں سے انتخاب نہیں لڑتی ہیں تو پی پی کے ٹکٹ پر سابق صوبائی وزیر سلیم خان کے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی اطلاعات ہیں، جو ذاتی طور پر صوبائی حلقے پی کے ٹو کا الیکشن لڑنے کے خواہش مند ہیں۔

 جماعت اسلامی کے مولانا عبدلااکبر اپنی نشست کا دفاع کریں گے، جبکہ جماعت اسلامی کے رہنما اور دو مرتبہ ضلع ناظم رہنے والے مغفرت شاہ 8 فروری کے الیکشن میں صوبائی حلقے پی کے ٹو سے جماعت اسلامی کے امیدوار ہوں گے۔

 اسی طرح جے یو آئی ایف کے مقامی سطح پر مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کی صورت  میں مسلم لیگ ن پی کے ون (چترال بالا پر مشتمل صوبائی حلقہ) کی نشست پر جے یو آئی ایف کے امیدوار کی حمایت کرے گی۔

 واضح رہے ضلع چترال بالا کی تحصیل تورکھو موڑکھو میں جے یو آئی کا مضبوط ووٹ بنک موجود ہے، ضلع چترال کے نشستوں کے حوالے سے اب تک جس جماعت کی واضح صورت حال سامنے نہیں آئی ہے وہ تحریک انصاف ہے۔

 نوجوانوں میں مقبول سیاسی جماعت تحریک انصاف جو کہ اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے، این اے ون اور پی کے ون اور ٹو کی نشستوں پر کن امیدواروں کو انتخابی دنگل میں اتارے گا،  سردست کچھ واضح نہیں ہے۔

اظہر علی تعلق سے تعلق رکھنے والے صحافی ہے جو کہ پشاور میں مختلف اخبارات کے ساتھ وابسطہ ہے ۔ اور پشاور میں سیاسی بیٹ کو کور کر رہے ہیں

اظہر علی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے