تحریر: صفی اللہ بیگ
حال ہی میں ہنزہ کے خون منجمد کرنے والی سردی میں عوام نے چھ دن تک بجلی کی شدید قلت کے خلاف علی آباد کے مقام پر ایک بھرپور احتجاجی دھرنا دیا اور قراقرم ہائی وے کو بند کیا۔ احتجاجی دھرنے میں خصوصاً خواتین، طلبا، بچوں اور بزرگوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی شرکت کے ساتھ عوام نے گلگت بلتستان پر مسلط پاکستان کا غیر آئینی نوآبادیاتی نظام، وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور ناکامیوں کے خلاف اپنے بھرپور غم و غصے کا اظہارکیا۔
ہنزہ کے اس دھرنے میں جب گلگت بلتستان کے دوسرےاضلاع سے ترقی پسند اور قوم پرست مقامی پارٹیوں نے بھی شرکت کرنا شروع کیا تو دھرنے کی ہیت بدلتی گئی۔ جس میں ہنزہ کے فوری مسائل کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے بڑے مسائل یعنی نوآبادیاتی قبضے کا خاتمہ، آئین ساز اسمبلی کا قیام، گلگت بلتستان کو ٹیکس فری زون بنانے، دس ضلع کا خاتمہ، لینڈ ریفارمز بل کی منسوخی، معدنیات و دیگر فطری وسائل پر قبضہ، افسر شاہی کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف جدوجہد اور سرحدی تجارت میں ہنزہ کا حصہ جیسے مطالبات پر زور دیا گیا۔
چین کا اہم صوبہ شن جیانگ (سنکیانگ) سے ملحقہ ہنزہ جیسے اہم خطے میں جاری اس عوامی احتجاج اور اس کے مطالبات سوشل میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی اور پاکستانی میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں تک پہنچنے لگا۔ جس نے پاکستان کی وفاقی حکومت میں کھلبلی مچادی ۔ دنیا بھر میں ایک بار پھر بے نقاب ہونے ، چین کی سرحد پر ہونے والی اس دھرنے پر چین کا ممکنہ رد عمل کے خوف اور ایک انقلابی سمت اختیار کرنے سے روکنے کے لیئے پاکستانی اہلکاروں اور سہولت کار سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ جس میں گلگت بلتستان کے کٹھ پتلی وزیراعلٰی گلبرخان سمیت مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے صدر حفیظ الرحمن اورپیپلزپارٹی کے صدر امجد حسین ایڈووکیٹ کو بین لا صوبائی رابطہ کے وفاقی وزیر نے اسلام آباد میں اجلاس بلایا۔ مگر ہنزہ سے احتجاجی کمیٹی کے کسی رکن حتٰی کہ حلقہ ہنزہ کے کھٹ پتلی نمائندوں کو بھی اس اجلاس میں شریک نہیں کیا گیا ۔
چین کو ملانے والی اہم شاہراہ کی چھ دنوں سے بندش، دھرنے کے دونوں جانب سرحدی تجارت کے مال سے لدے ٹرکوں کی قطاریں اور، دھرنے کی شدت میں اضافہ اور عالمی میڈیا میں کوریج سے پریشان وفاتی حکومت نے فوری طور پر گلگت بلتستان کی حکومت اور نوآبادیاتی افسرشاہی کےکارندوں کے ذریعے دھرنے کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات شروع کیا۔ انہوں نے دھرنے کی مذاکراتی ٹیم کی ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے فوری طور پر میٹنگ کے روداد مینٹس کا اعلان کرنے کے لیے حکومتی ٹیم کے افسران دھرنے میں پہنچے۔ جہاں دھرنے کے شرکاء نے وفاقی، مقامی حکومت اور افسرشاہی کے خلاف پرجوش نعرہ بازی سے استقبال کیا۔ حکومتی ٹیم نے عوام کے غم و غصے کو بھانپ کر فورا ً تمام مطالبات کی منظوری کا اعلان کیا۔ لیکن ہوشیاری سے ان مطالبات کی منظوری کا طریقہ کار، ان پر عمل درآمد کا اوقات کار اور ان کی تکمیل کی نگرانی سمیت دیگر تفصیلات دھرنے کے شرکاء کو بتانے سے گریز کیا اور یوں ہنزہ کے عوام کا پر جوش دھرنا کو نوکر شاہی کے نمائندوں کے ذریعے ختم کروایا گیا اور عوام کو تھرمل جنریٹر کے ذریعے دو مہینوں کے لیے بجلی دینے کی منظوری دے دی۔
وفاقی حکومت اور اس میں شامل بڑے پارٹیوں کے ایما پر گلگت بلتستان کی نوآبادیاتی افسر شاہی کا احتجاجی کمیٹی کے نمائندوں کے ساتھ میٹنگ کی جاری کردہ روداد کا جائزہ لیتے ہیں اور مذاکراتی کمیٹی کے چند ممبران کی میٹنگ کی ماحول کے حوالے سے گفتگو سنتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ افسر شاہی کس قدر گھبراہٹ کا شکار تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے فوری طور پر تمام گیارہ مطالبات کی کمزوریوں کو سمجھتے ہوئے پروجیکٹس کی فیزیبلٹی کو بیوروکریٹک انداز اور زبان میں لکھ کر مذاکراتی کمیٹی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ حکومت کو مطالبات منظور ہیں۔ اس عجلت میں نوآبادیاتی افسران کی ٹیم نے اپنے تربیت کے مطابق عوامی دھرنے کے مذاکراتی ٹیم کے ممبران کا نام اس میٹنگ کے روداد میں لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سرکاری افسران نہ صرف اس دھرنے سے خوف زدہ تھے بلکہ مذاکراتی ٹیم سے بھی کسی طرح جان چھڑانا چاہتے تھے یا پھر عوامی نمائندوں کے ناموں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
عوامی مزاحمت کی طاقت اور مطالبات کی نوعیت
ہنزہ میں بجلی کی شدید قلت کے خلاف عوامی دھرنے میں عوام کی بھرپور شرکت خصوصا خواتین، طلبا، بچوں اور بزرکوں کا منفی درجہ حرارت میں شرکت، ان کا جوش و جذبہ، اور اس دھرنے کے ذریعے ہنزہ اور گلگت بلتستان کے بنیادی مسائل پر نوجوانوں، خواتین اور مقرر ین کی معلومات سے بھرپور آگاہی اور کامیابیوں کے علاوہ وفاقی اور گلگت بلتستان میں افسرشاہی کے تحت کام کرنے والی حکومت کا تجزیہ کرتے ہوئے سب سے پہلے دھرنے کے مطالبات پر غور کرنا ضروری ہے۔
دھرنے کے اختتام پر مذاکرات کے نتیجے میں جاری ہونے والا میٹنگ کی روداد میں دی گئی گیارہ مطالبات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان مطالبات کو جلدی میں اور بغیر دھرنے کی مشورت سے ترتیب دی گیی تھیں۔ اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان مطالبات کی تشکیل پر تفصیلی غور و خوض نہیں کیا گیا ہو۔ پھر ان مطالبات کو حکومت کے سامنے رکھنے سے پہلے میڈیا کے ذریعے عوام کے وسیع تر حلقوں اور سیاسی کارکنوں تک پہنچانے کی کوششیں بھی نظر نہیں آرہی تھیں۔ ایسے میں حکومت نے ان کمزور مطالبات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اور عوام کے دباَوکو ختم کرنے میں کامیاب بھی ہوا۔ کسی بھی عوامی احتجاج کی کامیابی کا دارومدار عوامی مطالبات، ان کی جمہوری انداز اور سیاسی بصارت سے تشکیل، عوام میں مقبولیت اور مطالبات کی منظوری سے عوام کو متوقع فائدے پر ہوتا ہے۔
مثلا ان مطالبات میں سر فہرست مطالبہ عطا آباد جھیل پر چو ون میگاواٹ کی بجلی کے منصوبے کی جلد از جلد تکمیل تھا۔ اور دھرنے کے دوران کم و بیش ہر مقرر نے بغیر معلومات کے اس مطالبے پر زور دیا۔ حالانکہ یہ پروجیکٹ واپڈا کا مستقبل کے پروجیکٹس میں شامل ہے یعنی واپڈا کے تین قسم کے پروجیکٹس میں سے یہ پروجیکٹ نہ تو زیرتعمیرہے نہ ہی تعمیرکےلیے تیار پروجیکٹس میں آتا ہے بلکہ مستقبل کے پروجیکیٹ کے کیٹگری میں شامل ہے۔ اس پر پروجیکٹ کے شروع ہونے سے پہلے اس کی جامع ٹیکنیکی، تعمیراتی اور مالی اخراجات کی فیزیبلٹی اور منصوبہ بندی پر کام ہونا باقی ہے۔ ساتھ ہی اس پیچیدہ پروجیکٹ میں میں دواعشاریہ تین کلومیٹرلمبا اور ساڑے سولہ فٹ چوڑا ٹنل کی تعمیر بھی شامل ہے جو موجودہ عطا آباد کے دوسرے یعنی سب سے لمبے ٹنل کے ساتھ ساتھ بنے گا۔
کیا ٹنلز ممکن ہے؟
یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا تقریبا چار کلومیٹر کے موجودہ چین کے ساتھ تجارت کا اہم ٹنلز کے برابر میں پانی کا ٹنل بن بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اس میں کیا مسائل ہونگے ان سب پر ماہرانہ غورو خوض ابھی ہونا ہے۔ مختصراً ً اس لمبے عرصے کے پروجیکٹ کا مطالبہ کرنے سے حکومت پر زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا۔ البتہ اس مطالبے سے عوام کا فوری تکلیف میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ اس لیے مذاکرات کرنے والی افسرشاہی کی ٹیم نے اس مطالبے پر انگریزی میں چند جملے لکھ کر عوام اور مذاکراتی ٹیم کو ٹالنے کی پوری کارکردگی دکھا دی۔
عشروں سے سوچی سمجھی اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہنزہ میں پیدا کی گئی بجلی کے پیداوار میں کمی سے متعلق دوسرا اہم مطالبہ چین سے بجلی کی درآمد سے متعلق تھا۔ اگرچہ یہ قابل عمل تجویز ہے تاہم یہ ہنزہ میں بجلی کی بحران کے خاتمہ کے لیے دیر پا اور پائدار منصوبہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لیے کم از کم دو سو کلومیٹر کا ہائی وولٹیج لائن ہنزہ تک بچھانا پڑے گا جو کہ ایک مہنگا پروجیکٹ ہے ۔ دوسرا خنجراب ٹاپ سے لے کر سوست تک وادی نہ صرف تنگ ہے بلکہ اس میں موسمی حالات اور لینڈ سلائڈ اور دیگر خطرات بھی یہاں زیادہ ہے۔ چنانچہ چین سے بجلی لانے اور اس کی جاری رکھنا ایک مہنگا عمل ہے۔ لیکن دوسری طرف اس پروجیکٹ میں تعمیراتی کام بہت کم بلکہ خریداری کا کام زیادہ شامل ہے۔ اس لیے یہ پروجیکٹ ایک منافع بخش ٹھیکہ کے نوعیت کا ہے جو ہر حکومت اور افسرشاہی کے لیے بھی منافع بخش ہوتا ہے۔ اس لیے دھرنے میں اس پر زور دیا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مطالبے کے پیچھے اور اس کی تشہر میں بالواسطہ طور پر حکومتی اہلکار، افسران اور بڑے ٹھیکیداروں کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے۔
دیگر مطالبات میں موجودہ چھوٹے پروجیکٹس پر کام میں تیزی اور کچھ تبدیلیوں سے متعلق فیصلے شامل تھے اور ہنزہ میں بجلی کی قلت کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر تھرمل جنریٹرز کے ذریعے بجلی فراہم کرنے کا مطالبہ پہلے ہی وفاقی حکومت نے دو مہینوں تک منظوری دے دیا تھا۔
مگر ان مطالبات میں جن مطالبات کو نظرانداز کیا گیا وہ بڑے اہم تھے۔ مثلا ہنزہ میں بجلی کی مقامی پیداوار میں اضافے کے لیے کم مدتی پروجیکٹس، ان کے لیے مالی وسائل کی نشاندہی، ہنزہ کے لیے سالانہ ترقیاتی فنڈز میں اضافہ اور ہنزہ کے عوام کو اپنے وسائل کا انتظام اور استعمال کی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی سے جان بوجھ کر بیس سالوں سے محروم رکھنے کا خاتمہ کو دھرنے کے مطالبات میں شامل نہ کرنا کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ کیونکہ چھ دنوں میں کم و بیش تمام مقررین نے ان بنیادی اور اہم مطالبات کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ ان پر تفصیل سے سرکاری اعداد وشمار کے ثبوتوں کی روشنی میں ان پر تفصیلی گفتگو بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ہنزہ سے گلگت۔بلتستان اسمبلی کا موجودہ ممبر عبید اللہ بیگ نہ صرف اپنی ناکامی پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہے بلکہ حکومت اور افسرشاہی کے خلاف بھی تقریریں کر ڈالیں۔
جیسا کہ اکثر مقررین نے یہ سوال اٹھایا کہ ہنزہ کو۲۰۱۹ سے اب تک بجلی کے مد میں سالانہ ترقیاتی فنڈز کایوں نہیں دیا جا رہا ہے؟ جس کے لیے دھرنے میں بار بار یہ تجویز پیش کی گئی کہ گلگت بلتستان کا رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا اور ۸۰ ہزار آبادی رکھنے والے ضلع کو گلگت بلتستان اسمبلی میں دوسرا سیٹ فوری طور پر منظور کیا جائے۔
علاوہ ازیں دھرنے میں ہنزہ میں ۱۰ میگاواٹ کی بجلی کے منصوبے کے تکمیل کے لیے چین کے ساتھ سرحدی تجارت کی سالانہ آمدنی میں ۲۰ فیصد حصہ منظور کرنے اور اس کو بجلی کی پیداوار پر خرچ کرنے پر زور دیا گیا ۔ اسی طرح سرکاری وسائل میں افسرشاہی کے ذریعے خرد برد، ہنزہ میں چھوٹے ترقیاتی کاموں ، میونسپل سروس، ایمرجنسی و آفات سے نمٹنے کا انتظام، سیاحت و ماحولیات کی بہتری اور فطری وسائل کے بہتر استعمال کو افسر شاہی کی لوٹ کھسوٹ سے نکال کر کوعوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل بلدیاتی حکومتوں کا فوری قیام پر دھرنے میں مکمل اتفاق رائے پائی جاتی تھی۔
مگرہنزہ کو گلگت بلتستان اسمبلی میں دوسرا سیٹ کا دیرینہ مطالبہ، سرحدی تجارت سے سالانہ ہنزہ کی ترقی کے لیے ۲۰ فیصد حصہ مقرر کرنا، بلدیاتی انتخابات کا فوری انعقاد اور گنش پل پر تین مہینے کے اندر اندا ۱۰ میگاواٹ بجلی کا پروجیکٹ شروع کرنا، معدنیات کے لیے جاری لیزز کا خاتمہ، ہنزہ میں واٹر اینڈ پاور کے ۴ ارب کی اثاثوں اور ہنزہ میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے لیئے کی گئی خفیہ معاہدے کی منسوخی، گرین ٹوریزم کا سرکاری اثاثوں پر قبضے کا خاتمہ جیسے بینادی مطالبات شامل نہ کرنا باعث حیرت اور غور طلب ہے ۔ کیونکہ دھرنے کے اختتام پر عوام کو صرف چند گھنٹے کی تھرمل بجلی کا وعدہ ہی مل سکا اورہنزہ کے باقی اہم اور بنیادی مسائل حکومت بڑی حکمت عملی سے آیندہ تک پس منظر میں پھینکے میں کامیاب ہوگئی۔ جس کے نتجے میں دھرنا کو کامیاب بنانے والے نوجوان ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور خواتین میں غم و غصہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس کا اظہار دھرنے کے اختتام کے بعد ہنزہ کے مختلف سیاسی و سماجی حلقوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر اب مسلسل کیا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کا واحد ذمہ دار پاکستان کا متنازعہ گلگت بلتستان پر مسلط غیر آئینی نوآبادیاتی نظام ہے جس کی پاکستان کے تین بڑی پارٹیاں نہ صرف حمایت کرتی ہیں بلکہ متنازعہ گلگت بلتستان میں اس نوآبادیاتی نظام کو قائم رکھنے اور پاکستان کے حکمران اشرافیہ کا گلگت بلتستان کی فطری دولت پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی میں بھی پیش پیش رہے ہیں۔ مثال کے طور پر متنازعہ گلگت بلتستان میں غیر قانونی ٹیکسوں کا نفاذ، مجوزہ لینڈ ریفارمز بل، ۲۰ سالوں تک بلدیاتی انتخابات کا نہ کرانا، افسرشاہی کے مراعات میں بے پناہ اضافہ، امن کے نام پر رینجرز اور ایف سی کو لاکر غیر ترقیاتی اخراجات کو بڑھانا، اسلام آباد میں گلگت بلتستان کو نسل کی عمارت پر اربوں روپے خرچ کرنا، سیاحت، بجلی، میونسپل سروسز، تعلیم، صحت اور ماحولیات کی نجکاری جیسے گھناونے فیصلے کرنے میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف برابر کے شریک ہیں۔
اس لیے نوجوانوں کو اب سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا کہ گلگت بلتستان سے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے لیے ان وفاقی پارٹیوں اور ان کے مقامی کٹھ پتلی مہروں پر نہ صرف نظر رکھنے کی ضروت ہے بلکہ ان کو عوام میں آگاہی کے ذریعے بے نقاب کرنا نہایت اہم ہے۔ کیونکہ اس دھرنے اور ہنزہ کے بنیادی مطا لبات کو موخر کرنے میں ایک بار پھر ان بڑے پارٹیوں کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ اس لیے ہنزہ سمیت پورے گلگت بلتستان میں نوجوانوں کو مقامی ترقی پسند اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کا مسلط کردہ نوآبادیاتی نظام اور سرمایہ داری کے خاتمے، گلگت بلتستان میں آئین ساز اسمبلی کا قیام، آزاد عدلیہ، بااختیار منتخب مقامی حکومتیں اور گلگت بلتستان کی عالمی ماحولیات اور خطے کی بین الاقو امی سامراجی قوتوں کے لیے تزویراتی اہمیت کو دونوں طرف سے ڈی ملیٹرایزیشن کے ذریعے خطے کو بچانے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگا ۔ اور پاکستان کے تینوں بڑی پارٹیوں کا پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق کی سلبی اور گلگت بلتستان پر انیسویں صدی کا غلامانہ نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں کردار کو سمجھنا پڑے گا۔
صفی اللہ بیگ عوامی ورکرز پارٹی گلگت-بلتستان کے سینئر رہنما ہیں اور ثقافتی، ماحولیاتی و سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ وہ سوشل میڈیا کے متحرک کارکن ہیں ۔