تحریر: عزیز علی داد
ہر سماج اپنا ایک ضمنی کلچر پیدا کرتا ہے۔ ایسا کلچر تب جنم لیتا ہے جب معاشرہ بعض ناقابل قبول حرکتوں، باتوں اور اعمال کے ہونے کے باوجود ان کے وجود سے انکار کردیتا ہے۔ چونکہ سماج ایسے کلچر کے وجود سے ہی انکاری ہوتا ہے، اس لئے اس کے پاس ضمنی کلچر کی تفہیم ہی نہیں ہوتی چہ جائیکہ اس کی سدباب کی کو تدبیر کرسکے۔ یوں سماج ایک قسم کا سماجی ناسور اپنے اندر پنپنے دیتا ہے۔ اس کا لامحالہ نتیجہ سماج کی نفسیاتی تقسیم کی صورت میں نکلتا ہے جہاں پر معاشرہ وہ نہیں ہوتا جس کے ہونے کا وہ وعدہ کرتا ہے۔
پینٹنگ: اندر کی بلائیں
مثال کے طور پر گلگت بلتستان والے اپنی ثقافت میں عورت کی عزت و تکریم ہونے کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں، مگر گھروں اور ذہنوں میں جھانک کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ عورت پوری تو کیا آدھی انسان بھی نہیں ہے۔ بچہ بازی اور خوبرو لڑکوں کو ساتھ رکھنا بازار میں موجود کافی تعداد کے مردوں کا کلچر ہے لیکن سماج نے اوپر سے مذہبی ہونے کا خول چڑھایا ہوا ہے۔ یوں یہ معاملہ کھل کر سامنے نہیں آتا ہے۔ مارکیٹ میں مردوں کی اپنی انا اور جبلی تسکین کے لئے ایک نئی زبان ایجاد کی گئی ہے جس سے گلگت بلتستان کی عورتیں مکمل طور پر ناآشنا ہیں۔ لیکن یہ معاملہ سامنے اس لئے نہیں آتا کیونکہ سماج نے تقدس کے مختلف ہالوں کے لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔
ایک دن میں گلگت کے کسی بڑے سٹور میں خریداری کے لئے گیا۔ وہاں پر سیلز پر موجود ایک لڑکی نے سلام دعا کیا۔ میں نے معزرت کی کہ میں انھیں پہچان نہیں سکا۔ خاتون نے بتایا کہ یونیورسٹی میں انھوں نے میرے کچھ پبلک لیکچرز میں شرکت کی تھی اور ماسٹرز کرنے کے بعد وہ اس سٹور پر کام کررہی ہیں۔ میں نے انھیں ان کی اس محنت پر شاباشی دی۔ کاؤنٹر پر پیمنٹ کرکے باہر نکل رہا تھا ایک بندہ قریب آکے کہنے لگا کہ ہماری لڑکیاں خراب ہورہی ہیں اور آپ یہاں پر دکانوں میں کام کرنے والی نوجوان لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں جو کہ غلط ہے۔ میں نے کہا کام کرنے میں شرمندگی نہیں عظمت ہے۔ یہ لڑکی اگر کام کرکے اپنا نان نَفَقَہ پیدا کررہی ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ میں نے ان سے یہ پوچھا کہ اگر کوئی لڑکی مجبور ہوکر چھپ کر پیسوں کے عوض اپنا جسم بیچے تو یقیناََ اس سماج کو اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ یہ کام اخفاء میں ہو رہا ہے۔ اس سماج کے مرد کو اعتراض ہے تو ان عورتوں پر جو کھل کے محنت کرتی ہیں۔ اس سے بڑا منافق اقدار کس سماج میں ہے؟ یہ زیر زمین یا ضمنی کلچر کی ایک ژندہ مثال ہے۔ گلگت بلتستان میں اس وقت یہ زیر زمین ضمنی کلچر مضبوط ہوتا جارہا ہے جو بالآخر اوپری پرت پر موجود کمزور کلچر کو نگل جانے پر منتج ہوگا۔
اب تک ہمارا سماج اپنے اندر موجود اس اخلاقی اور نفسیاتی دوئی کو چھپانے میں کامیاب رہا تھا، لیکن سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ہمارا مخفی چہرہ سامنے آرہا ہے۔ گلگت بلتستان میں آجکل سوشل میڈیا کے ابھار سے جو لوگ کلچر کے متعلق متفکر ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا نے ہماری عادات کو بگاڈ کر ہمیں غلط کاموں میں مبتلا کردیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے سماج میں موجود چھپی گندی ذہنیت کوننگا کردیا ہے۔ ہم جتنے صاف ہونگے، سوشل میڈیا پر ہمارا چہرہ اتنا ہی صاف ہوگا۔ اسی طرح ہمارا سوشل میڈیا اتنا ہی گندہ ہوگا، جتنی گندی ہماری ذہنیت ہوگی۔
مابعد الجدیدی صورتحال اور ماحول میں سوشل میڈیا اس ضمنی کلچر اور مخفی ذہنیت کو سامنے لاکر سماج اور شخصیت کی اس دوئی کو ختم کررہا ہے۔ اب سماجی رابطے کی دیواروں اور سکرینوں پر ہمیں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ ہماری نوشتہ دیوار ہے۔ سوال یہ کے کہ اس نوشتہ دیوار کو پڑھنے اور قبول کرنے کی کتنی جرات ہم میں ہے؟ لگتا یہی ہے کہ ہم اس موضوع کو بھی اپنے خاموشی کے ضمنی کلچر میں دھکیل دینگے۔ مگر ہم اس کو جتنا دبائیں گے یہ اتنا ہی ہمارے سکرینوں پر امڈ کر سامنے آئیگا کیونکہ لاشعور اِدھر ڈُوبتا ہے تو اُدھر نکلتا ہے، اور یہاں ڈوبتا ہے تو وہاں نمودار ہوتا ہے۔ یہ بات اس کی علامت ہے کہ ضمنی کلچر کے پھوڑے سماج کے ہر مقام میں پھوٹ کر سامنے آرہے ہیں اور اس کی تباہی سے ہمیں جعلی غیرت کا کوئی بیانیہ نہیں بچا سکتا ہے۔
ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ ‘دی نیوز’، ‘فرائڈے ٹائمز’، ‘ہم سب’،’ ہائی ایشیاء ہیرالڈ ‘اور ‘بام جہاں ‘میں سماجی و فکری موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں۔ ان کی دو کتابیں حال ہی میں شائع ہو چکی ہیں۔