Baam-e-Jahan

کھوار زبان اور کھو  شناخت! حقائق اور مفروضے


تحریر: کریم اللہ

کھوار زبان چترال کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور سوات کے علاقہ کلام میں بولی جاتی ہے۔ چترال کی سب سے بڑی زبان ہونے کے علاوہ گلگت بلتستان کی بھی دوسری یا تیسری بڑی زبان ہے۔ کھوار زبان کے آغاز و ابتداء کے حوالے سے کوئی مستند دستاویز  موجود نہیں کہ اس زبان کا آغاز کب اور کیسے ہوا اور اس کی جنم بومی کونسا علاقہ ہیں۔ البتہ چترال اور غذر کے علاقوں میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالوں سے انسانی آبادی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق میں بالائی چترال کے علاقہ پرواک، نصرگول وغیرہ میں چار عیسوی سے لے کر 850ء تک کے انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں یہ تحقیق دو ہزار دو عیسوی میں ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کی ٹیم نے کی تھی۔ جس کی رپورٹ شائع ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ بالائی چترال میں آثار قدیمہ پر زیادہ تحقیق نہیں ہوئی البتہ ہزارہ یونیورسٹی ہی کے ماہریں نے لوئر چترال سینگور گان کورینی کے مقام پر بھی دو مرتبہ کھدائی کی ہے سینگور کی پہلی کھدائی کی رپورٹ کے مطابق پرواک و نصرگول اور سینگور میں انسانی زندگی کے آثار کی تاریخ یکسان ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں چترال میں کونسے لوگ رہ رہے تھے اور ان کی زبان و لسانی شناخت کیا تھی یہ تو ہنوز تحقیق طلب ہے۔ البتہ چترال کے بعض محقیقیں بالخصوص ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، پروفیسر اسرار الدین اور اس قبیل کے دیگر دانشوروں کی رائے ہے کہ بالائی چترال کے لوگ کھو تھے جبکہ زریں چترال میں کلاش یا گجر رہائش پزیر تھے۔ البتہ  فخر الدین  اخونزدہ کی حالیہ شائع شدہ کتاب "چترال کی زبانیں” میں گجر برادری کی چترال آمد کو اٹھارہویں اور انیسویں صدی بتایا گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا "کھو” کوئی نسلی و لسانی گروہ ہے۔؟؟ کیا کھوار بولنے والے سارے  "کھو” کہلائیں گے۔۔؟

کھوار بولنے والوں کے لئے "کھو” کی اصطلاح ایکیڈیمیا میں تسلسل کے ساتھ مستعمل ہے مقامی مصنفیں کے علاوہ یورپی مصنفیں کی تحریروں میں بھی کھوار بولنے والوں کے لئے "کھو” کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ (کاکوپارڈو برادرز کی کتاب  گیٹس آف پارستان، اخونزدہ کی، چترال کی زبانیں، چترال ایک تعارف، فیضی، اسرار وغیرہ)۔

 کیا سارے کھوار بولنے والے "کھو” ہو سکتے ہیں۔؟ کیا "کھو” کوئی نسلی یا لسانی شناخت ہے یا علاقائی شناخت۔۔؟ بالائی چترال میں "کھو” کن لوگوں کو کہا جاتا ہے۔؟ کیا گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے کھوار بولنے والے بھی "کھو” ہو سکتے ہیں۔؟

کھو:

مستوچ یعنی پارپیش سے لے کر ڑاسپور اور یارخون کے آخری گاؤں انکیپ تک کے کھوار بولنے والے لوگ موڑکھو اور تورکھو کے لوگوں کے لئے "کھو” کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ان کے نزدیک موڑکھو اور تورکھو سے تعلق رکھنے والے لوگ "کھو” ہیں جبکہ موڑکھو اور تورکھو سے مستوج جسے بیار بھی کہا جاتا ہے کے علاقوں میں نقل مکانی کرکے آباد ہونے والوں کے لئے بھی "کھو” کی اصطلاح استعمال کی جاتی  ہیں یعنی ان لوگوں کو کھو، کھوان دیہہ اور کھوان دور کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

اسی طرح بیار کا کوئی بھی کھوار بولنے والا خود کو کبھی بھی "کھو” نہیں کہتا اور نہ اس مسلط شدہ شناخت کو کبھی ان علاقوں کے لوگوں نے اپنانے کی کوشش کی۔ ایسے میں سارے کھوار بولنے والوں پر "کھو” شناخت مسلط کرنا دانشمندانہ فعل نہیں۔ کیونکہ درحقیقت "کھو” کوئی لسانی شناخت نہیں بلکہ ایک علاقائی شناخت ہے اور خصوصا موڑکھو کے لوگوں کے لئے "کھو” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

"کھو” شناخت بھی موجودہ تحصیل موڑکھو یا تورکھو کے سارے باسیوں کے لئے مستعمل نہیں کیونکہ ریاستی دور میں "کھو” علاقے کی زرین سرحد موژگول اور بالائی سرحد سور وخت ہوتے تھے جبکہ تریچ کی اپنی علیحدہ شناخت ہوتی تھی۔ آج بھی کوشٹ، موردیر، لوٹ اویر وغیرہ کے لوگ موژگول سے بالائی علاقوں کے باسیوں کو”موڑکھویچی” کہتے ہیں جبکہ تریچ کے باسیوں کے لئے "تریچھیغ” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہیں۔

اس لئے یہ کہنا کہ کھوار بولنے والے سارے "کھو” ہیں درست تصور ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کھوار بولنے والے "کھو” نہیں تو ان کی شناخت کیا ہے۔؟

اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ لازمی نہیں کہ ہر ایک شناخت لسانی ہو کھوار زبان اور اردو کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو ان دونوں زبانوں میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے جس طرح اردو زبان پاکستان اور ہندوستان میں رہائش پزیر کروڑوں لوگوں کی زبان تو ہے لیکن ان کروڑوں لوگوں کی لسانی شناخت نہیں۔ اردو بولنے والے کوئی ایک قومیت میں نہیں آتے بلکہ پاکستان میں اردو بولنے والے خود کو مہاجر شناخت دینے کی غیر فطری کوشش کرتے ہیں۔

ٹھیک اسی طرح کھوار بولنے والے کوئی لسانی گروہ نہیں اور نہ ہی کھوار بولنے والے سب کو ہم "کھو” شناخت دے سکتے ہیں۔ کیونکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں واخان و بدخشان اور دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے ترک وطن کرکے چترال میں آکر آباد ہو گئے اور اب یہ لوگ مکمل طور پر نہ صرف کھوار بولتے ہیں بلکہ وہ یک لسانی ہو گئے ہیں کیا وہ لوگ بھی "کھو” لسانی شناخت میں شامل ہو گئے ہیں۔؟

اسی طرح کلاش برادری کے لوگ جب مسلمان ہو جاتے ہیں تو اپنی زبان بھی چھوڑ کر کھوار کو اپناتے ہیں کیا وہ لوگ بھی "کھو” کہلائیں گے۔؟

گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے بالائی علاقوں کے باشندے صرف یک لسانی ہیں یعنی ان کی زبان صرف کھوار ہے اور یہ لوگ یہاں کے مقامی باشندے ہیں نہ کہ چترال یا بالائی چترال سے ہجرت کر کے وہاں آباد ہو گئے ہیں یہ لوگ کبھی بھی خود کو "کھو” نہیں کہتے کیا ہم ان پر بھی "کھو” شناخت مسلط کر سکتے ہیں۔؟

دراصل ہمارے ایکیڈیما کے بعض دانشوروں نے سارے کھوار بولنے والوں  پر "کھو” نام کے ایک خالص علاقائی شناخت کو تھوپنے کی کوشش کی۔

 ایکیڈیمیا میں تسلسل کے ساتھ اس مسلط شدہ شناخت  کا تکرار ہوتا رہا ہے مگر چترال کی سماجی و  عمرانیات اور روزمرہ کی بول چال میں "کھو” کی یہ مسلط شدہ شناخت جگہ نہیں بنا سکی اور یہاں کے لوگ آج بھی "کھو” علاقائی شناخت کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک غیر فطری شناخت کو مسلط کرنے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ "کھو” ایک علاقائی شناخت ہے جبکہ کھوار زبان اس شناخت سے بڑھ کر  زیادہ وسیع زبان ہے۔

مصنف کے بارے میں

کریم اللہ فری لانس جرنلسٹ، کالم نویس اور ڈیجیٹل کانٹینٹ کریٹر ہے جو کہ عرصہ پندرہ سالوں سے مختلف علاقائی و ملکی سطح کے نشریاتی اداروں کے ساتھ بطور صحافی و بلاگر کے کام کر رہے ہیں تاریخ و ثقافت اور روزمرہ کے واقعات پر ان کی نظر ہوتی ہے۔

کریم اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے