تحریر: کریم اللہ
چترال سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور رپورٹر گل حماد فاروقی گزشتہ روز حرکت قلب بند ہونے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے خدا ان کی روح کو دائمی سکون نصیب فرمائیں۔ آمین
گل حماد فاروقی بنیادی طور پر محکمہ موسمیات کے ملازم تھے جہاں پر ان کا تبادلہ چترال ہو گیا وہاں سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد وہ صحافت سے منسلک ہو گئے اور زندگی بھر اسی پیشے سے وابسطہ رہے۔
گل حماد فاروقی سے قبل چترال میں صحافت محض ڈائننگ رومز تک محدود تھی عوام کے مسائل کو ان کے دہلیز میں جا کر ذرائع ابلاغ کی مدد سے حکام بالا تک پہنچانے کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی کوئی متحرک صحافی یا میڈیا پرسن۔ فاروقی نے اس کمی کو پورا کرنے کی ٹھان لی اور انتھک محنت سے چترال کے کونے کونے تک پہنچ گئے لوگوں کے مسائل کو اجاگر کیا اور اسی وجہ سے ہی بہت سارے مسائل حل ہو گئے۔
یہی نہیں چترال میں آج بمشکل الیکٹرانک اور ڈیجیٹل صحافت یعنی (آڈیو اور وڈیو صحافت) کا آغاز ہو گیا ہے وہ بھی زیادہ تر نوجوان اپنی کوششوں سے کر رہے ہیں جبکہ فاروقی مرحوم نے الیکٹرانک صحافت کا آغاز بھی ایسے دور میں کیا جبکہ یہاں کے صحافی بمشکل پرنٹ میڈیا کے لئے خبریں بنا رہے تھے۔
ایسے میں گل حماد فاروقی کو چترال میں جدید الیکٹرانک میڈیائی صحافت کا معمار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
آپ نے بہت سارے ملکی و غیر ملکی میڈیا گروپوں کے ساتھ کام کیا اور چترال کے مسائل کو اجاگر کرتے رہے ساتھ ہی یہاں کے پوٹینشل کو بھی دنیا کے سامنے لانے میں پیش پیش رہے۔
آپ ایک نڈر صحافی تھے جو کسی بھی مسئلے کو جان فشانی کے ساتھ اجاگر کرتے تھے۔ گزشتہ چند ماہ سے وہ چترال شندور روڈ پر ناقص کام کے حوالے سے مسلسل رپورٹنگ کرتے رہے تھے اور لوگوں کو بتانے کی کوشش کی کہ اتنے بڑے پیمانے پر کس طرح ناقص کام ہو رہا ہے۔ اسی پاداش میں فاروقی صاحب کے خلاف ٹھیکیداروں کی جانب سے ایف آئی آر بھی درج ہوا اور ان کے کردار کشی بھی کی گئی مگر وہ تسلسل کے ساتھ اس مسئلے کو اجاگر کی۔
لیکن اجل کو کچھ اور ہی منظور تھا زندگی بھر خبریں دینے والا اچانک خود ہی خبر بن گیا۔ گل حماد فاروقی کی طرز صحافت سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کے پیشہ ور یعنی پروفیشنل اور متحرک صحافی ہونے میں کسی بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ آج چترال کے لئے میڈیا میں آواز اٹھانے والے ایک بااثر آواز بند ہو چکا ہے۔ فاروقی کی رحلت یقینا چترال میں ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔