تحریر: اسرارالدین اسرار
شاہراہ قراقرم گلگت بلتستان کے باسیوں کے لئے ہمیشہ موت کا کنواں ثابت ہوا ہے۔ گذشتہ کیٗ دہائیوں سے تواتر سے رونما ہونے والے حادثات سے لے کر دہشت گردی کے واقعات تک اور قدرتی آفات سے لے کرمسافر بسوں کی لوٹ مار تک اس شاہراہ پر اپنے عزیزوں اور پیاروں کی قیمتی جانیں کھونے والے ہزاروں لوگوں پر اس شاہراہ کا نام سنتے ہی سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔
اس روڑ پر رونما ہونے والا ہر حادثہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے قیامت خیز ہوتا ہے۔ یہاں کا ہر ذی شعور شخص ہر المناک واقع کے بعد غم زدہ ہوتا، کف افسوس ملتا اور بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔
یہ سارے واقعات خودبخود رونما نہیں ہوتے بلکہ ان میں قدرت سے زیادہ انسانی کوتاہیوں کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ سیکورٹی سے لے کر روڑ سیفٹی تک کے تمام معاملات متعلقہ محکموں کی بہتر منصوبہ بندی کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر حادثے کے بعد کچھ عرصے تک حکومتی و سماجی حلقوں سے تعزیعتی بیانات جاری ہوتے ہیں اس کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے اگلے حادثے کا انتظار ہوتا ہے۔
حالیہ روڑ حادثہ جس میں بیس سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں اور اتنے ہی مسافر زخمی ہوئے ہیں، نے جہاں لوگوں کو غمزدہ کیا وہیں دیامر کے مقامی لوگوں نے اپنی بہترین روایات کی پاسداری کرتے ہوئے لاشوں اور زخمیوں کو سنھبالا اور ان کے عزیزوں کے حوالے کردیا۔ جس کے لئے وہ تمام رضاکار خراج تحسین کے مستحق ہیں جو ہر واقع کے بعد فورا جائے حادثہ پر پہنچ جاتے ہیں اورمثالی انسانی خدمت بجالاتے ہیں۔
یہ حادثہ کسی مہذب معاشرے میں رونما ہوتا تو متعلقہ وزیر یا محکمہ کا سربراہ استعفی دیتا، قوم سے مانگتا، تحقیقات کے بعد کوتاہی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دلانے کا اعلان کرتا لیکن ہمارے ہاں اس کی توقع رکھنا عبث ہے۔ گذشتہ ایک دو سالوں کے عرصے میں گلگت بلتستان میں پچاس سے زائد روڑ حادثات وقوع پذیر ہوئے ہیں جن میں درجنوں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
مذکورہ حادثے نے ماضی کے حادثات کی طرح کئ سوالات کو جنم دیئے ہیں۔ ان سوالات کا جواب یقننا کہیں سے نہیں آئیں گے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیں گے کہ ان سوالات کے جوابات اگر بروقت مل جائیں تو ایسے خوفناک حادثات میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اس اہم تجارتی و امدو رفت کے حامل شاہراہ پر سفر کے اوقات کون طے کرتا ہے؟
کیا اس شاہراہ پر رات کے اوقات سفر کرنا مناسب ہے؟
اس شاہراہ پر سفر کرنے والی بسوں کی فٹنس سرٹیفیکیٹ کون جاری کرتا ہے؟
کیا اس بات کی تسلی کی جاتی ہے کہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے بس کا مکمل معائنہ کیا گیا ہو؟
اس طویل اور کٹھن شاہراہ پر بسیں چلانی والی پرایٗوٹ کمپنیوں کے لئے کیا قواعد و ضوابط طے کئے گئے ہیں؟
ہر بس میں کتنے ڈرائیورز ہوتے چاہیے، کیا ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ سفر سے پہلے ان کی نیند پوری ہونے کا موقع ملا تھا یا نہیں؟
کیا ان ڈرائیورز کی تعیناتی سے قبل ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کا معایٗنہ اور امتحان لیا جاتا ہے یا ان سے میڈیکل سرٹیفیکیٹ طلب کیا جاتا ہے؟
کیا ڈرائیورز کی تنخواہ اتنی ہوتی ہے کہ وہ ذہنی سکون اور یکسوٗی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے سکیں؟
کیا ڈرائیورز کو لیبر قوانین کے مطابق دیگر سہولیات اور مراعات دیئے جاتے ہیں، جن میں ان کے میڈیکل الاونس، رسک الاونس، انشورنس وغیرہ شامل ہیں تاکہ ان کے لئے ڈرائیونگ کے سخت اصول طے کئے جاسکیں؟
کیا ڈرائیورز پر نشے کی حالت میں گاڑی چلانے پر پابندی ہے؟
کیا بس پر سامان اور مسافروں کے وزن کی کوئی حد مقرر ہے؟ٰ
کیا اس روٹ کے اوپر مختلف مقامات پر رک کر کمپنی کے ذمہ داروں کی طرف سے بس کا معائنہ کیا جاتا ہے اور ڈرائیورز کی جسمانی اور ذہنی کیفت دریافت کی جاتی ہے؟
کیا اس روٹ پر تیز رفتاری پر کوئی قدغن ہے؟ اس کی حد کیا ہے اور کون اس پر نظر رکھتا ہے؟
اس روٹ پر سیفٹی کے لوازامات کو دیکھنا کس محکمہ کی ذمہ داری ہے؟
روڑ کی خستہ حالی، حفاظتی دیواروں اور جنگلوں کا نہ ہونا کس کی کوتاہی ہے؟
جن کے پیارے اور عزیزجاں بحق ہوتے ہیں کیا ان کے لئے معاوضہ کمپنی دیتی ہے؟
کیا مسافروں کا انشورنس ہوتا ہے؟
جو جواں سال لوگ اس روڑ پر سفر کے دوران حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں ان کے لواحقین اور بال بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کس کے سر پر ہوتی ہے؟
کیا ایسے حادثات کے بعد ٹرانسپورٹ کمپنی سمیت متعلقہ محکموں کے ذمہ داروں سے باز پرس کرنا ہی کافی ہے یا ان پر بھاری جرمانہ عائد کی جانا چاٗیے اور سخت سے سخت سزا دی جانا چاہئے تاکہ وہ ٹرانسپورٹ کے بنیادی اصولوں اور قوانین پر عملدامد کو یقینی بنا سکیں؟
کیا گلگت بلتستان کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والے دیگر آسان راستوں، جن میں بابوسر کاغان ناران روڑ، استور سے کشمیر کا روڑ اور غذر چترال روڑ شامل ہے، کی بروقت تکمیل اور ان کو سارا سال قابل استعمال کرنے سے ایسے حادثات کے امکانات کم نہیں کیا جا سکتا؟
کیا دنیا بھر میں روڑ حادثات کے بعد حکومتیں تعزیتی بیانات پر اکتفا کرتی ہیں یا ہر حادثے کے بعد کچھ سبق سیکھ کر اپنی پالیسیوں یا قوانین میں تبدیلی لاتے ہیں؟
ہمارے ہاں حکومتیں کب انسانی جانوں کی حفاظت کو اپنی اولین زمہ داری سمجھیں گی؟
کیا اس اہم ترین شاہراہ کی مرمت اور مینٹینینس کے ذمے دار اداروں کے خلاف مجرمانہ غفلت برتنے پر کوٗی کاروایٗی عمل میں لاٗی گٗی ہے؟
ان سوالات پر غور کرنا اور ان کے جوابات تلاش کرنا انتہاٗی اہم ہے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات کو روکا جا سکے۔
اسرارالدین اسرار سینٗر صحافی اور حقوق انسانی کمیشن پاکستان گلگت بلتستان کے کوا ٗرڈینیٹر ہیں۔ وہ بام جہاں میں ‘قطرہ قطرہ’ کے عنوان سے مختلیف سماجی مسایل پر مضامین لکھتے ہیں۔