تحریر: مصطفی کمال
کالونائزیشن نہ صرف معاشی تھا بلکہ علمی بھی تھا۔ کیونکہ قابضین کے پاس قلم کی طاقت تھی، اور مقبوضہ لوگوں کے پاس قلم کی طاقت نہیں تھی تو یہ قابضین ہی تھے جنہوں نے مقبوضہ علاقوں کے رسوم و رواج، مذہبی شناخت، سماجی میل جول کے اوپر قلم اٹھایا اور کئی صدیوں تک قابضین کے لکھے گئے علوم کو مستند سمجھا جانے لگا۔
قابضین کے پیدا کردہ علوم پر سب سے پہلے علمی تنقید فلسطینی نژاد امریکی پروفیسر اور دانشور ایڈورڈ سعید نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’اورئنٹیلزم‘ میں کی۔ اس کتاب نے علمی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا۔ اسی کتاب کی اشاعت کے بعد دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ایشیائی، افریقی تاریخ کے شعبوں اور پوسٹ کالونئیل اسٹیڈیز کی بنیاد رکھی گئی۔ علمی دنیا میں جتنا اثر اس ایک کتاب کا رہا، شاید ہی کسی کتاب کا رہا ہو۔ ایڈورڈ سعید نے بنیادی طور پر یہ نظریہ پیش کیا کہ قابضین کا پیدا کردہ علم مغربی تسلط کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ تھا جس کے پسِ پردہ استعماری طاقت کا عنصر موجود تھا۔ اس علم کے ذریعے قابضین نے مشرقی معاشروں کے خلاف ثقافتی تعصب کو فروغ دیا اور مشرقی معاشرے کو ایک پسماندہ، غیر عقلی، اور وحشی معاشرے کے طور پر پیش کیا۔ ۱۹۷۸ کو شائع ہونے والی یہ کتاب اب تک علمی اور تحقیقی حلقوں میں سب سے زیادہ اثر انگیز کتاب رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
ہمارے جنوبی ایشیا کے تناظر میں ایک علمی تحریک ’سبالٹرن اسٹیڈیز’ کے نام سے ۱۹۸۰ میں ابھری جس کا بنیادی مقصد محروم طبقات کی آواز کو تاریخ میں شامل کرنا، تاریخ کو زیادہ جامع اور متنوع بنانا اور برطانوی قابضین کی لکھی گئی تحاریر کا ازسر نو جائزہ لینا تھا۔ اس تحریک کے پسِ منظر میں گرامشی، مارکس، لوئس فیب، اور ایڈورڈ ٹامسن کے ’History From Below’ کا اہم کردار تھا –
گلگت بلتستان میں بھی تاریخ نویسی کا رجحان دو زمانوں میں مقید ہے ۔ جہاں ایک طرف گلگت کی تاریخ اپنی شاندار بدھسٹ ماضی اور تہذیب سے کٹ چکی ہے، وہی پر مقامی روایتوں کو گلگت بلتستان کے لوگ اہستہ اہستہ خود ہی مٹانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ مثلاّّ گلگت بلتستان میں دوسرے فرقوں میں شادی ایک عام بات تھی مگر اب اسے فرقہ ورانہ غیرت و عزت کا وہ مسئلہ بنایا گیا ہے کہ لوگ قتل ہوتے ہیں اور فرقے اپس میں الجھ جاتے ہیں۔ گلگت کی مقامی تاریخ سے زیادہ کتابیں کشمیر کی ’جہاد’ پر لکھی جاتی ہیں ۔
اپنی مشہورِ زمانہ کتاب “ کیا سبالٹرن بول سکتے ہیں؟” میں ہندوستانی اسکالر پروفیسر گایتری چکرورتی سپیوک نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا وہ افراد اور اقوام جو تاریخی طور پر مضافات (کچھ لوگ اسکا ترجمہ حاشیہ کرتے ہیں مگر مجھے مضافات کہنا ہی موزوں لگتا ہے) میں رہے ہوں، اپنی تاریخ لکھ سکتے ہیں؟
گلگت بلتستان بھی زمانہ قدیم سے ایک مضافاتی علاقہ رہا ہے۔ آنجہانی لیٹنر کی دردستان سے لے کر مارٹن سوخفلیڈ کی ’انتھروپولوجی آف گلگت بلتستان’ اورہرمن کروٹزمین کی ’ہنزہ میٹرز’ سےتک اور سوسن یارک کی ’ایک پہاڑی نخلستان: یاسین ویلی میں روزمرہ کی زندگی’ تک تمام ادب بیرونی لوگوں کا پیدا کردہ ہے۔
اس تناظر میں عزیز علی داد اور ڈاکٹر نوشین صاحبہ کا گلگت میں ایک پبلشنگ ہاوس قائم کرنا اور گلگت کے تناظر میں علمی مواد پیدا کرنے کا بیڑہ اٹھانا نہایت ہی خوش آئنید اور نیک شگون ہے۔
عزیز علی داد گلگت بلتستان کے جانے مانے لکھاری ہیں جنکی مقامی تاریخ پر گہری نظر ہے جبکہ ڈاکٹر نوشین کی گلگت پہ کتاب کئی ایوارڈز اپنے نام کر چکی ہے۔ ان دونوں کی ادارت میں چھپنے والی کتابیں یقیناً مقامی تاریخ اور مقامی علم میں قیمتی اضافہ کریں گی۔
عزیز اور زبیر توروالی اس سے پہلے ’وی ماونٹینز’ کے نام سے ایک میگزین بھی شائع کر چکے ہیں مگر اس میگزین میں زیادہ تر شاعروں سے تحقیقی مقالے لکھوائے گئے تھے اور ہر زبان کو جگہ دینے کی کوشش کی گئی تھی جسکی وجہ سے اس میگزین کا تحقیقی اثر نسبتاّّ کم رہا۔ امید ہے کہ اب کی بار خالص علمی اور تحقیقی مواد ہی چھپ کر سامنے آئے گی۔ سرِ دست کتاب کے اندر موضوعات پر کچھ اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ کتاب دستیاب نہیں ہے۔
عزیز صاحب اور نوشین صاحبہ کو اس مشکل علمی اور تحقیقی عمل کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لئے نیک خواہشات
نوٹ: کتاب کی رونمائیی کے سلسلے میں راچی پبلشرز اور گلگت بلتستان اسٹوڈینٹس کونسل کی جانب سے ایک تقریب بروز بدھ ۲۰ نومبر کو قایٗد اعظم یونیورسٹی کے ارتھ ساینسز ڈپارٹمینٹ میں رکھی گیی ہے۔ جس میں عزیز علی داد مہمان مقرر کی حیثیت سے کتاب پر روشنی ڈالیں گے۔
مصطفی کمال کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ سویڈن کے لینوس یونیورسٹی میں ابلاغیات اور ثقافتی اندسٹریز(ڈیجیٹل میڈیا) میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں