تحریر: ضمیر عباس
شاعری کا پس منظر
پہلی قسط میں بیان ہُوا کہ مولانا کی مغرب و مشرق میں یکساں مقبولیت کی منجملہ وجوہات میں سے ایک اُن کے انسانی وجود کے جُملہ پہلووں پر مشاہدات اور لطیف پیرایہ میں اُن کا بیان ہے ۔ مغرب میں اُن کو مذہب سے ماورا شاعر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ مشرق میں عموماً انہیں ایک جید مسلمان عالم و صوفی کی صورت متعارف کرایا گیا ہے۔
اس قسط میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش ہوگی کہ مولانا کی شاعری کا پس منظر کیا ہے؟
یہ بات ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ مولانا کے زمانے (تیرھویں صدی عیسوی ) میں بذریعہ شاعری اپنے خیالات عوام الناس تک پہنچانے کا رجحان رواجاً موجود تھا۔ یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ شاعری کا مرکزی موضوع صرف مجازی عشق ہو۔ مثلاً مولانا کی ولادت سے قبل دینی، دنیاوی اور صوفیانہ خیالات کا اظہار فارسی زبان کے اہم شعرا مثلاً فردوسی، ناصر خسرو، حکیم ثنائی، رُودکی، عمر خیام اور نظامی گنجوی کے کلام کی شکل میں موجود تھا۔
مولانا کے ہم عصر شعرا مثلاً شیخ سعدی, فریدالدین عطار، فخرالدین عراقی اور شمس تبریزی وغیرہ نے بھی مذکورہ موضوعات پر طبع آزمائی کی تھی۔ اور ظاہر ہے یہ سلسلہ مولانا کی وفات کے بعد چیدہ شعرا ءجیسے حافظ شیرازی، جامی، ثائب طبریزی، بیدل دہلوی، خواجہ میر درد، اور علامہ اقبال وغیرہ کے کلام کی صورت جاری رہا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مولانا ایک روایتی مُفتی، خطیب، شیخ، واعظ اور مذہبی عالم سے عارفانہ شاعر میں کیسے تبدیل ہوئے تو چند نکات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔
پہلی بات یہ کہ اُن کے والد گرامی ، بہاؤالدین، ایک مشاق یا practicing صوفی تھے۔ والد کے مشاہدات و تجربات پر مبنی تحاریر “معارف” کے نام سے موجود ہیں۔ مولانا پر والد کے خیالات کا اثر انداز ہونا ایک قدرتی سی بات ہے۔ اس زمانے کا احوال فارسی ادب شناس اور مصنف فرینکلن لیوس نے مولانا کی زندگی پر لکھی ہوئی اپنی کتاب میں خاصا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
یقینا بڑھتی عمر کے ساتھ مولانا کا تعارف والد کے علاوہ اسلام عقائد بالخصوص صوفی طرز فکر کی ترویج کرنے والی شخصیات سے ضرور ہُوا ہوگا۔ یہ سلسلہ اِس خاندان کا اپنے آبائی علاقے بلخ (چند محقق اِسے وخش کہتے ہیں) سے ۱۲۱۲ ءمیں ہجرت کرنے اور آذربائجان، بغداد، مدینہ، شام اور دیگر علاقوں سے ہوتے ہُوئے ترکی کے شہرقونیہ میں مستقل سکونت کرنے تک جاری رہنا معمول کی بات لگتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ عمومی رائے کے برعکس اس دور کے صوفی روایتی اسلامی تعلیم مثلاً قرآن و حدیث، تفسیر، فقہ و اصولِ قانون اور منطق وغیرہ کی تعلیم ان کالجوں سے حاصل کرتے جو بغداد، حلب ، دمشق اور دیگر شہروں میں قائم تھے-یہ درس گاہیں مختلف اسلامی مکتب ہائے فکر کے مطابق تعلیم کا انتظام کرتے- تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈگری یا اجازہ مل جاتی-یہ ایسا ہی تھا جیسے آجکل کے میڈیکل اور انجینئرنگ علوم کے ادارے طالبعلموں کو ڈگری سے نوازتے ہیں- ڈگری یافتہ حضرات مساجد میں امام، خطیب، مفتی اور شیخ کے طور پر کام شروع کرتے۔ مولانا کے والد کی مادر علمی کا تو کتُب میں ذکر نہیں ملتا البتہ انہیں مذکورہ علوم کے حصول کے لئے دمشق اور حلب ۱۲۳۲ ءتا ۱۲۳۷ ءبھیجا گیا تھا-مولانا نے سُنی حنفی علماء کی شاگردی اختیار کی- مولانا کے سوانح نگار افلاکی اور سپہ سالار کے مطابق دوران طالب علمی ان کی ملاقات مشہور صوفی محی الدین عربی اور شمس تبریزی سے ہوئی تھی۔
یہ پس منظر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مولانا نے جس دور میں شاعری کا آغاز کیا تب پہلے سے نہ صرف شاعری بلکہ اسلامی علوم بشمول صوفی ازم کے متعلق تعلیمات کے لئے مختص ادارے موجود تھے- یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس دور میں مساجد اور مدرسوں کے ساتھ ساتھ خانقاہیں ( عربی زبان میں زاویہ) بھی موجود تھیں- خانقاہوں میں چھوٹی عمر کے طالبعلموں کی صوفی تعلیمات کی رو سے تربیت کا اہتمام کیا جاتا- مولانا کی قونیہ واپسی تک اُن کے والد ایک صوفی عالم کے طور پر کافی مشہور ہوچکے تھے۔
جب مولانا فارغ التحصیل ہو کر واپس قونیہ آئے تو اُن کے والد ( سال انتقال ۱۲۳۱ء)کے شاگردوں خصوصًا برہاالدین محقق نے انہیں آمادہ کیا کہ وہ اپنے والد کی جگہ شیخ و واعظ کا وہ عہدہ سنبھال لیں جو امانتاً برہان الدین کے پاس تھا۔ ۱۲۳۷ ءسے ۱۲۴۴ ءتک یہ سلسلہ جاری رہا تاوقتیکہ مولانا کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ چونکہ یہ ملاقات بہت اہم ہے اور اِس سےمتعلق ماہرینِ رومی نے کافی کچھ لکھا ہے ۔ اس تبدیلی کی نوعیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے جو بعد از اختلاطِ شمس و مولانا ظہور میں آئی۔
اگلی قسط میں تفصیل سے اسِ کا ذکر کرینگے تاکہ مولانا کے کلام کو اس پس منظر میں سمجھا جاسکے۔ (جاری ہے)

ضمیر عباس کا تعلق گلگت۔بلتستان سے ہے اور وہ اس وقت ایک پبلک سیکٹر ادارے کے سربراہ ہیں۔ ادب و سماجی موضوعات بلخصوص رومی پر ان کی انگریزی اور اردو زبانوں میں تحریریں مختلف قومی و مقامی اخبارات میں شاع ہوتے رہتے ہیں۔