تحریر: اسلام الدین ایڈووکیٹ
چند روز قبل گلگت بلتستان اسمبلی میں حکومت کی جانب سے زمینوں کے حوالے سے "گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز بل” پیش کیا گیا۔ اپوزیشن کی طرف سے اس بل کی شدید مخالفت دیکنے میں آئی، جبکہ حکومت اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے اس کی بھرپور حمایت کی گئی۔ یوں حکومت نے عددی اکثریت سے اس بل کو منظور کر لیا اور "گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025” اب قانون بننے کے آخری مرحلے میں ہے۔ اس ایکٹ کی منظوری کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے تبصرے، تجزیے، اعتراضات اور تحفظات سامنے آئے، اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ چونکہ لینڈ ریفارمز ایکٹ مروجہ قانون "ناردرن ایریاز نوتوڑ رولز 1978کو منسوخ کر رہا ہے، لہٰذا نئے قانون کو سمجھنے سے قبل منسوخ ہونے والے قانون یعنی نوتوڑ رولز 1978 کو جاننا ضروری ہے۔
نوتوڑ رولز کا پس منظر
نوتوڑ رولز کا قانون آزادی سے قبل خالصہ (سکھ حکمران )کے دور سے گلگت اور بلتستان میں نافذ العمل رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے 1978 میں "گلگت سب ڈویژن نوتوڑ رولز 1942” اور "بلتستان نوتوڑ رولز 1965” کو ختم کر کے "ناردرن ایریاز نوتوڑ رولز 1978” نافذ کیے۔ اس قانون میں انفرادی ملکیتی زمین کے علاوہ ایک ہی قسم کی زمین کا ذکر ملتا ہے، جسے نوتوڑ لینڈ (Nautore Land) کہا جاتا ہے۔ بندوبستی علاقوں میں نوتوڑ لینڈ سے مراد وہ تمام اراضیات ہیں جو سیٹلمنٹ ریکارڈ میں "کھاتہ خالصہ” کے تحت یعنی حکومتی ملکیت میں درج ہوں، جبکہ غیر بندوبستی علاقوں میں نوتوڑ زمین سے مراد وہ زمین ہے جو کسی کی انفرادی ملکیت یا قبضے میں نہ ہو، جسے کسی مجاز اتھارٹی نے الاٹ نہ کیا ہو، اور جو گاؤں کی حدود سے باہر واقع بنجر اراضی ہو۔
نوتوڑ لینڈ سے متعلق تمام اختیارات کلیکٹر/ڈپٹی کمشنر کو حاصل ہوتے ہیں۔ وہ چاہے تو الاٹ شدہ زمینوں اور انتقالات کو منسوخ کرے یا نئے الاٹمنٹ اور انتقالات کا اندراج کرے۔ یعنی بنجر اور عوامی اراضی سے متعلق تمام فیصلوں کا اختیار کلیکٹر کے پاس ہوتا ہے۔ نوتوڑ رولز 1978 میں عوامی ملکیتی اراضی، قابل تقسیم یا ناقابل تقسیم اراضی یا مشترکہ اراضی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا؛ اراضی یا تو انفرادی ملکیت میں تھی یا خالصہ سرکار کی ملکیت تصور ہوتے تھے۔
نوتوڑ رولز اور لینڈ ریفارمز بل کا تقابلی جائزہ
لینڈ ریفارمز ایکٹ اور نوتوڑ رولز کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو لینڈ ریفارمز ایکٹ ایک جامع قانون نظر آتا ہے، جس میں گلگت بلتستان کے مروجہ رواج، مقامی حالات اور زمینوں کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی گئی ہے۔ معترضین کی جانب سے اس قانون پر یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ عوامی زمینوں، پہاڑوں، چراگاہوں اور نیشنل پارکس وغیرہ کو حکومت کی ملکیت قرار دیا گیا ہے، جبکہ قانون کے مطالعے سے یہ تاثر درست نہیں ۔
گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025 میں زمینوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی مشترکہ اراضی (Common Land) اورحکومتی اراضی (Government Land)۔ مشترکہ اراضی کو مزید دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قابلِ تقسیم مشترکہ اراضی (Common Partible Land) اور ناقابلِ تقسیم مشترکہ اراضی (Common Impartible Land)۔ قابلِ تقسیم مشترکہ اراضی سے مراد وہ بنجر زمینیں، ٹھنگس، داس، عوامی مشترکہ اراضی ہے جو ریکارڈ مال میں خالصہ سرکار کے طور پر درج ہو؛ شاملات، نالہ جات، چراگاہیں جو رواجی قوانین کے مطابق گاؤں کی حدود میں شامل ہوں، اور وہ تمام اراضیات جو قابلِ استعمال ہوں لیکن کسی فرد کے نام پر درج نہ ہوں۔
ناقابلِ تقسیم مشترکہ اراضی سے مراد وہ اراضی ہے جس کی تقسیم ممکن نہ ہو، جیسے قدرتی جنگلات، دریا، جھیل، نالے، چشمے، گلیشیئرز، تالاب، پہاڑ، بلند و بالا موسمی چراگاہیں، سڑکیں، کھیل کے میدان، قبرستان، مذہبی رسومات کے لیے مختص جگہیں، اور دیگر وہ اراضیات جو مختلف قوانین کے تحت ناقابلِ تقسیم ہوں۔
یہ قانون پہلی مرتبہ تمام بنجر اراضی، چراگاہیں، پہاڑ، دریا وغیرہ کو مشترکہ عوامی اراضی قرار دیتا ہے اور عوام کو ان زمینوں اور وسائل کا مشترکہ مالک تسلیم کرتا ہے۔ جبکہ نوتوڑ رولز میں مشترکہ عوامی ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا اور بنجر زمینوں پر مکمل مالکانہ حقوق اور اختیارات حکومت کے پاس تھے۔
قانون کے مطابق دوسری قسم کی زمینیں "حکومتی اراضی” (Government Land) کہلاتی ہیں۔ اس سے مراد وہ زمینیں ہیں جو صوبائی یا وفاقی حکومت کو الاٹ کی گئی ہوں، حکومت کے قبضے میں ہوں، یا ریکارڈ مال میں حکومتی اداروں کے نام سے تصدیق شدہ ہوں۔ البتہ الاٹمنٹ بلا قبضہ اراضی سے متعلق یہ قانون خاموش ہے۔ اگر یہ قانون بغیر قبضے کے الاٹمنٹ کو تحفظ دیتا ہے تو بندوبستی علاقوں میں کی گئی تمام الاٹمنٹس مؤثر ہوں گی، اور مشترکہ عوامی زمین کا ایک حصہ سرکاری تحویل میں چلا جائے گا۔
اس قانون پر یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ ڈپٹی کمشنر/کلیکٹر کو تمام اختیارات دیے گئے ہیں اور حلقے کے ممبر کو اس کے ماتحت رکھا گیا ہے۔ تاہم قانون کے مطابق، سیکشن 4 کے تحت "ڈسٹرکٹ لینڈ اپورشنمنٹ بورڈ” (DLAB) تشکیل دیا گیا ہے، جس کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوگا، اور متعلقہ حلقے کا رکن اسمبلی بھی دیگر ممبران کے ساتھ اس بورڈ کا حصہ ہوگا۔ یہ بورڈ قابلِ تقسیم اراضی کی تقسیم سے متعلق پلان اور سفارشات تیار کر کے "گلگت بلتستان لینڈ اپورشنمنٹ بورڈ” (GBLAB) کو پیش کرے گا، اور حتمی فیصلہ GBLAB کرے گا۔ GBLAB کا سربراہ گلگت بلتستان کا وزیر اعلیٰ ہوگا۔
اس قانون کے تحت ڈپٹی کمشنر/کلیکٹر کو اراضی الاٹ کرنے یا الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ قانون کے مطابق انفرادی طور پر زمین کی الاٹمنٹ کا تصور ختم کر دیا گیا ہے، اور قابلِ تقسیم اراضی DLAB کی سفارش پر GBLAB حق داروں میں تقسیم کرے گا۔ یعنی تمام اختیارات اب GBLAB کو حاصل ہیں، جس کی سربراہی عوامی منتخب نمائندہ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کرے گا۔
۔
اسلام الدین ایڈووکیٹ گلگت۔بلتستان چیف کورٹ کے وکیل ہیں
