نیاز مرتضیٰ
جنگجو سردار لاقانونیت والے علاقوں پر اپنی نجی فوجوں کے ذریعے قبضہ کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ظلم وزیادتی کرکے لوٹ کھسوٹ کے زریعے مال جمع کیا جائے ۔اود لوگوں کو بھی اپنے تابع کیا جائے۔ان کے سامنے اخلاقیات اور قانون نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ۔

جنگجو سرداروں کی تاریخ قدیم ہے، لیکن آج کے جنگجو سرداروں کی شکل کچھ بدل سا گیا ہے ۔ اور اب یہ مقامی جنگجو سرداروں کا خطرہ اب ایک عالمی خطرے میں بدل چکا ہے—اور حیرت انگیز طور پر، جدید ریاستیں اس کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل دو الگ ممالک ہیں، لیکن ان کے مقاصد تقریباً ایک جیسے ہیں۔ درحقیقت، کچھ لوگ انہیں ایک مشترکہ دو سرے والی اکائی ’امریائیل‘ (USrael) سمجھتے ہیں، جو یکجا ہو کر کام کررہے ہیں ۔ اور قانون اور اخلاقیات کا دعویٰ کرنے کے باوجود جنگجو سرداروں جیسی صفات کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں ۔
بدقسمتی سے، آج کی عالمی صورتحال بھی جنگجو سرداروں کے علاقوں کی طرح قانون کے بغیر آگئے بڑھ رہی ہے، جہاں طاقتور ممالک جیسے امریکہ، روس، اسرائیل وغیرہ کمزور بین الاقوامی قوانین کو من مانی طریقے سے توڑتے ہیں۔ ’امریائیل‘ نے افغانستان، عراق، لبنان، فلسطین، لیبیا، شام اور اب ایران پر حملوں کے ذریعے سب سے زیادہ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، جبکہ پاکستان، یمن اور صومالیہ میں بھی مداخلت کی ہے۔ اقوام متحدہ کا قانون ممالک کو اپنی دفاع کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت دیتا ہے، حتیٰ کہ قریب الوقوع حملوں کو روکنے کے لیے بھی یہی قانون اجازات دیتی ہے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل دونوں نے اس قانون کو غلط طریقے سے وسعت دے کر معمولی یا دور دراز کے خطرات کے لیے بھی طاقت کا استعمال کیا ہے، جنہیں مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکتا تھا۔
اسرائیل اگر چاہتا تو صرف اپنی سرحدی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کو مضبوط بنا کر مستقبل میں حماس کے حملوں کو ناکام بنا سکتا تھا، جس میں اس کے اپنے میڈیا کے مطابق خرابیاں موجود ہیں ۔ وہ اپنے مخصوص غیرقانونی طریقوں (جیسے دشمن رہنماؤں کو ٹارگٹ کرنا) کے ذریعے انتقام بھی لے سکتا تھا۔ لیکن اس نے عام شہریوں پر وحشیانہ حملے کرنے کا راستہ اپنایا، جس میں ہزاروں افراد مارے گئے، لیکن نہ تو یرغمالی رہا ہوئے اور نہ ہی حماس کو شکست دی جا سکی۔
بہت سے اسرائیلی غزہ کے باسیوں کی دکھ بھری تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر خوشی کا اظہار کررہء ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی رہنما بھی اسرائیل کے نسل کشی کے اقدامات کی حمایت کر کے غیر انسانی اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جو کہ ان کے انسانیات کے علم برداری کے دعوؤں کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ اب ایران کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے۔
امریکہ اور IAEA کے پاس ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کے ارادے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اور اگر ایران ایسا کر بھی رہا ہے، تو اس کا مقصد صرف دفاع ہوگا نہ کہ ایٹمی طاقتوں کے خلاف استعمال، جو اسے تباہ کر سکتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ بہت سے لوگوں نے نشاندہی کی ہے، امریکہ اور اسرائیل ایران کو لیبیا کی طرح ناکام ریاست بنانے کے لیے حملے کر رہے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اپنے بھولے پن میں ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا تھا ، جبکہ وہ ہمارے پڑوسی ملک پر بمباری کرنے والا
تھا ۔
کامیابی برائی کے عزائم کو دوگنا تیز کر دیتی ہے۔
جنگجو سردار منصفانہ مقابلے اور نہ تخلیقی صلاحیتوں سے بلکہ لوٹ مار کے ذریعے پروان چڑھتے ہیں۔ ایک زمانے میں معاشی دیو ہونے کے باوجود، امریکہ اب چین کے مقابلے میں دوسرے درجے کی صنعتی طاقت ہے۔ اس کا مالیاتی نظام اب بھی دنیا پر قائم ہے، لیکن اس نے عدم مساوات کو جنم دیا ہے، جو ارب پتیوں کو فائدہ پہنچارہا ہے اور اسی مالی نظام کی وجہ عدم استحکام کو فروغ مل رہی ہے۔ امریکہ کی سائنس اور فوج دنیا میں سب بڑی ہیں ، لیکن اب وہ اپنی سائنسی طاقت، معاشی طاقت کی بجائے فوجی طاقت کو زیادہ مضبوط کررہا ہے۔ لہٰذا، امریکہ اب منصفانہ مقابلے اور تخلیقی صلاحیتوں سے کم اور دھونس جمانے میں زیادہ کوشش کررہا ہے ۔
اسرائیل اس کا ایک اہم ساتھی ہے، جو اپنے چھوٹے سائز اور کمزور جمہوریت کی وجہ سے زیادہ تیزی سے حرکت کر سکتا ہے۔ وہ ایسے گھناؤنے اقدامات کرتا ہے جو امریکہ اپنے بیوروکریٹک اور جمہوری پابندیوں کی وجہ سے نہیں کر پاتا۔ درحقیقت، اسرائیل اب امریکہ کی طاقت کو اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے والا مرکزی منصوبہ ساز بن چکا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے کمزور لیکن پرکشش راستپوتن نے طاقتور روسی سلطنت کو اپنے قابو میں کر لیا تھا، جس کے نتیجے میں اس کا زوال ہوا۔
اگر وہ ایران کو شکست دے دیتے ہیں، تو وہ جلد ہی روس اور چین جیسے بڑے دشمنوں (اور شاید چین کے ’ہمہ وقت دوست‘ پڑوسی) کو گرانے کی سازش کریں گے۔ ظاہر ہے کہ فوجی طور پر نہیں، بلکہ معاشی، انٹیلی جنس اور سائبر تخریب کاری پر مبنی نئے ہائی ٹیک طریقوں سے ان سے بڑھتی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
چین صنعتی لحاظ سے امریکہ سے بڑا ہے، لیکن وہ امریکہ کی سفاک فوجی-انٹیلی جنس مشین کے مقابلے میں کمزور ہے۔ اس کے پاس عالمی سطح پر واقعات کو تشکیل دینے کی حکمت عملی یا طاقت نہیں ہے، لیکن وہ امریکہ کی قیادت والی دنیا میں معاشی طور پر ابھرنے کا ہدف رکھتا ہے۔ یہ خلا چین کو عالمی غلبے سے دور رکھتا ہے۔ دریں اثنا، امریکہ کا بدصورت نیو کنزروٹزم تیزی سے خطرناک ہوتا جا رہا ہے اور وہ چین کے عادلانہ عروج کو روکنے پر تلا ہوا ہے۔ چین کو روس، ایران اور شاید جنوبی افریقہ، برازیل اور اپنے ’ہمہ وقت دوست‘ کے ساتھ مل کر ایک دو قطبی دنیا تشکیل دینی چاہیے، جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی عالمی جنگجو سرداروں کی طرح تباہی نہ پھیلا سکیں۔
اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کی بڑی کمزوریوں جیسے سیاسی جمود، گرتی ہوئی انفراسٹرکچر، کم تعلیمی معیار، دوہرا خسارہ اور قرضے، لالچ اور عدم مساوات، غیر محفوظ سرحدیں، غیر ملکیوں کی بڑی تعداد اور اشرافیہ کی محدود دوراندیشی کو سامنے رکھ کر ایسی جدید حکمت عملیاں تیار کی جائیں جو اس کی غیرقانونی کارروائیوں کو ناکام بنا سکیں۔ ورنہ، وہ تمام ممالک جو امریکہ کو ناراض کرنے کی جرات کریں، کمودو ڈریگن کے بے بس شکاروں کی طرح اپنی باری کا انتظار کرلیں ۔
صنف: یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے سے سیاسی معیشت میں پی ایچ ڈی اور 50 ممالک میں 25 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔
murtazaniaz@yahoo.com
X: @NiazMurtaza2
یہ کلم روزنامہ ڈان (انگریزی )میں شائع ہو چکا ہے ۔جس کو اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ 24 جون 2025