اسلام آباد (بدھ، 2 جنوری، 2019): پارڈی سکول آف گلوبل افیر ، بوسٹن یونیورسٹی کے ڈین، پروفیسر ڈاکڑ عادل نجم نے کہا کہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی غصے کی لہر نے ایکٹیوزم اور فعالیت کی جگہ لے لی ہے، جو دنیا بھر میں جمہوریتوں کے لئے سنگین نتائج مرتب کرے گی۔ دنیا بھر میں سیاست نے مقبولیت ، آمریت ، مطلقیت اور انتہا ئی قوم پرستی کی طرف تیز ی سے رخ کرلیا ہے، جبکہ عالمی سیاسی منظر نامے پر برطانیہ کے بریکسٹ کے فیصلے اورامریکہ میں ڈونالڈ ٹر مپ کا انتخاب عالمی سیاست میں ا یک بہت بڑ ا رجحان ہے ۔
160 وہ ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی ) کی زِیر اہتمام ’ نیو ورلڈ ڈس آرڈر’ کے عنوان سے اپنے ایک خصوصی لیکچر میں کر رہے تھے۔ اس موقع پرایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم نے کہا کہ کچھ عالمی رجحانات جیسے سیاست برائے مخالف سیاست، مضبوط و آہن قیادت ، مقبولیت کی سیاست ، انتہا پسندی کی سیاست میں اضافہ ، انتہا ئی قوم پرستی کی سیاست اور احتجاج و خوف کا سیاسی آلے کے طور پر استعمال دنیا بھر میں جمہور یتوں کی تشکیل میں اہم کردار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیاست برائے مخالف سیاست کے دورے میں رہ رہے ہیں، جہاں سیاست کو صرف خرابی اور برائی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا، یہ پاکستان، بھارت، ترکی اور امریکہ کے لئے ایک حقیقت ہے۔
ڈاکٹر نجم نے کہا کہ دنیا میں مضبوط قیادت کا بڑھتا ہوا مطالبہ نے آمریت ، مطلقیت کو جنم دیا۔ چین میں ذی جننگ، روس میں پوٹن ، ترکی میں رجب ایردوگان اور بھارت میں نریندرہ مودی اس کی چند مثالیں ہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں احتجاج میں بہت اضافہ ہوا ہے جسے مفادات حاصل کرنے کے لئے ایک سیاسی آلے کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔
ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ کہ گزشتہ دو دہائیوں میں عالمی سیاست دنیا بھر میں بدل رہی ہے، جس ہم ٹرمپ اور بریکسٹ کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے عالمی رجحان اور حال ہی میں افغانستان سے امریکہ کے جزوی انخلا پاکستان کی طرح کی حکومتوں کے لیے اشارہ ہیں کہ وہ اپنے ضروری گھریلو معاملات پر زیادہ توجہ دیں.