تحریر: وسعت اللہ خان
پاکستان کے 25ویں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار دو برس اور 17 دن پورے کرنے کے بعد ریٹائر ہونے والے ہیں۔اگلے 11 برس میں جنوری 2030تک آٹھ معزز چیف ججوں میں سے صرف دو ایسے ہوں گے جن کی مدتِ عہدہ دو برس سے کچھ زائد رہے گی۔
اس ملک میں جسٹس محمد منیر چھ برس، اے آر کارنیلیئس آٹھ برس، حمود الرحمان سات برس اور جسٹس محمد حلیم ساڑھے آٹھ برس تک چیف جسٹس رہے۔مگر ان کے نام عام آدمی سے زیادہ قانون دانوں اور محققوں کو یاد ہیں۔کیونکہ افتخار محمد چوہدری سے پہلے تک عدالتِ عظمی کی جانب سے مفادِ عامہ کے نام پر ازخود نوٹس لینے کی روایت خال خال ہی تھی۔عدالت کا ڈیکورم اورجج کا رکھ رکھاؤ لگ بھگ وہی کلاسیکی انداز کا تھا جو نوآبادیاتی دور سے چلا آ رہا تھا یعنی جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔
افتخار چوہدری پہلے جج ہیں جنھوں نے تین قسطوں میں مجموعی طور پر لگ بھگ ساڑھے چھ برس چیف جسٹس کی کرسی کو رونق بخشی اور کئی اہم دورس فیصلے بھی کیے۔ وہ پہلے چیف جسٹس تھے جن کی عوامی پذیرائی حیرت انگیز تھی۔ وہ چاہتے تو حاصل شدہ اخلاقی طاقت کے بل پر حکومتوں سے ایسی عدالتی اصلاحات کروا سکتے تھے کہ جن کے سبب عام آدمی کے لیے حصول ِ انصاف کسی حد تک تیز رفتار اور قابلِ دسترس شکل اختیار کر جاتا اور ان کا نام تاریخ میں صرف جوڈیشل ایکٹوازم کے سبب نہیں بلکہ جدید عدالتی ڈھانچے کے معمار کے طور پر یاد رکھا جاتا۔ مگر آج افتخار محمد چوہدری صرف ایک ریٹائر چیف جسٹس کے طور پر یاد ہیں۔
2001 میں سپریم کورٹ میں اگر 13 ہزار مقدمات زیرِ سماعت تھے تو 2013 میں افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے وقت زیرِ سماعت کیسوں کی تعداد 20 ہزار سے اوپر ہو چکی تھی۔ افتخار چوہدری کے بعد پانچ چیف جسٹس آئے مگر پچھلے پانچ برس میں سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت مقدمات میں سو فیصذ اضافہ ہو چکا ہے یعنی 40 ہزار سے زائد کیسز فیصلے کے منتظر ہیں۔
پچھلے دو برس میں کرپشن، ڈیموں کی مجوزہ تعمیر، تجاوزات کی صفائی اور اسپتالوں کی حالتِ زار سمیت مفادِ عامہ کے درجنوں معاملات میں سپریم کورٹ کا بیشتر وقت صرف ہوا۔ جسٹس ثاقب نثار بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ جوڈیشل مشینری کو طویل المیعاد بنیاد پر فعال بنانے کا کام باقی ہے۔
اگر ہائی کورٹ اور زیریں عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات کی تعداد کو بھی جمع کر لیا جائے تو اس وقت پاکستان کی پوری عدلیہ کو 19 لاکھ مقدمات کا فیصلہ کرنا ہے اور اس ڈھیر میں ہر برس اوسطاً ایک لاکھ مقدمات کا اضافہ ہو رہا ہے۔
جس طرح کے حالات ہیں ان میں اگر کوئی فیصلہ کن تبدیلی نہ آئی تو اگلے دس برس میں انصاف کا بوجھ کم ہونے کے بجائے دوگنا تین گنا نظر آ رہا ہے۔ عدلیہ کو ماورائے آئین قوتوں سے خطرہ نہیں مگر مقدمات کا انبار ایوانِ عدل سے بھی اونچا ہو رہا ہے۔
ایک صاحب ہیں شیخ عبدالوحید۔انھوں نے 11 نومبر 1956 کو لاہور میں ایک رہائشی پلاٹ نیلامی میں خریدا۔ گذشتہ جنوری تک 62 برس بعد بھی وہ اس کا قبضہ نہیں لے پائے۔ ان کی فائل ہر چھوٹی بڑی عدالت و ٹریبونل سے ہوتی ہوئی سپریم کورٹ میں پڑی تھی۔ایسے جانے کتنے دیوانی مقدمات ہوں گے جو تیسری یا چوتھی نسل بھگت رہی ہے۔
جہاں تک فوجداری انصاف کا معاملہ ہے تو دو مجرم ایسے بھی ہیں جنھیں پھانسی دیے جانے کے سال بھر بعد باعزت بری کر دیا گیا۔ ایسے میں کریں تو کیا کریں۔
انصاف کی امان پاؤں تو ایک بات پوچھوں؟ کیا قانون میں اپنے بارے میں بھی ازخود نوٹس لینے کی گنجائش ہے؟
بشکریہ بی بی سی