Baam-e-Jahan

’ہوسکتا ہے سعادت حسن مرجائے اور منٹو نہ مرے‘

معاشرے کی ناپسندیدہ ترین تلخ حقیقتوں پر سے بے رحمانہ انداز میں پردہ ہٹانے اور اپنے قلم کے ذریعے انسانوں کی سنگدلی اور بے بسی کو آشکار کرنے والے بے باک ادیب منٹو کی آج 64 ویں برسی ہے۔

منٹو کا پورا نام سعادت حسن منٹو تھا، وہ 1912 میں بھارت کے علاقے لدھیانہ میں پیدا ہوئے، اور 1947 میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان آکر لاہور میں رہائش اختیار کرلی۔

منٹو نے ایک حساس افسانہ نگار تھے جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد پیش آنے والے غیر معمولی حالات و واقعات کا بہت زیادہ اثر قبول کیا اور اس حوالے سے انسانی نبض پکڑتے ہوئے کئی معرکتہ الآرا افسانے تحریر کیے۔

منٹو نے اپنے افسانوں میں خاص طور پر معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور افراد کے حالات تحریر کیے، انہوں نے اپنی تحریروں میں بڑی بے باکی سے انسانی منافقت کے پردے چاک کیے۔
منٹو کی بے باک تحریروں کی بدولت ان پر فحش نگاری کا ٹھپہ بھی لگایا گیا اور 6 افسانوں پر مقدمات بھی بنے، اس کے باوجود ان کے افسانوں کے کئی مکالمے زبان زدِ عام ہوئے۔

اپنی تحریروں پر لگے الزامات کے جواب میں منٹو کے کہے گئے الفاظ بھی ان کی طرح تاریخ کا حصہ بن گئے ’اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے، میری تحریر میں کوئی نقص نہیں ہے، جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے‘۔

انہوں نے افسانوں کے 22 مجموعے، ریڈیو کے لیے متعدد ڈرامے، مضامین اور ناول تحریر کیے، ان کے معروف افسانوں میں نیا قانون، الٹی شلوار، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، بو اور دھواں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ وہ کئی رسائل اور جرائد سے وابستہ تھے اور گیارہ کے قریب فلموں کی کہانیاں بھی تحریر کیں اور انگریزی ناولوں کے اردو میں ترجمے بھی کیے۔

منٹو پاکستان کے وہ واحد ادیب ہیں، جو اپنی وفات کے کئی دہائیوں بعد آج بھی اسی شدت سے مقبول ہیں، جس طرح وہ اپنی زندگی میں مشہور تھے۔
ان کی زندگی پر پاکستان اور بھارت میں فلمیں بنائی گئیں اور بے شمار سوانحی خاکے لکھے گئے۔

اہم بات یہ ہے کہ منٹو کے قلم سے لکھی گئی سچائیوں کا اطلاق آج بھی معاشرے پر اسی طرح ہوتا ہے جس طرح نصف صدی پہلے ہوتا تھا۔

اپنی زندگی میں متنازع قرار دیے جانے والے اس ترقی پسند ادیب کے فن کے اعتراف میں وفات کے نصف صدی بعد ان کی پچاسویں برسی پر محکمہ ڈاک نے ان کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا جبکہ 2012 میں انہوں نشانِ امتیاز بعد از مرگ سے نوازا گیا۔

زندگی کے آخری ایام میں منٹو کو کثرت شراب نوشی کے باعث جگر کا عارضہ لاحق ہوگیا اور اسی بیماری میں وہ 18 جنوری 1955 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

اپنی موت سے قبل ہی انہوں نے اپنا کتبہ تحریر کردیا تھا جبکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے تھے اکٹھے ہی مر جائیں گے لیکن ہوسکتا ہے سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے‘۔

بشکریہ ڈان اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے