پاکستان بھر کی جامعات میں نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے طالبات کو ملکی روایات کے مطابق ’اخلاقی لباس‘ پہننے کی تاکید کی جارہی ہے۔
حال ہی میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے رواں سال 14 فروری کو ’ویلنٹائن ڈے‘ کی جگہ ’سسٹر ڈے‘ (بہنوں کا دن) منانے کا اعلان کیا، اور اس دن لڑکے طالبات کو اسکارف اور عبایا تحفے میں دیں گے۔
یہ خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کے اس فیصلے پر تنقید کی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات سامنے آئے تھے جب یونیورسٹیز نے اپنی طالبات کو ایسے لباس پہننے سے روکا تھا جسے یونیورسٹی انتظامیہ ’اخلاقی‘ نہیں سمجھتے۔
گزشتہ سال انسٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ (آئی او بی ایم) سے تعلق رکھنے والی کئی طالبات نے سامنے آکر بتایا تھا کہ یونیورسٹی کے گارڈ نے انہیں ‘قواعد’ کے مطابق لباس نہ پہننے کی وجہ سے یونیورسٹی میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔
اس کے باوجود متعدد یونیورسٹیز ایسی ہیں جنہوں نے طلبہ اور طالبات کے لیے الگ الگ ڈریس کوڈز تیار کرکے رکھے ہیں، جن پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اس بحث کا آغاز چند سال قبل اس وقت ہوا تھا جب نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کی چند طالبات کو جینز، ٹائٹس پہننے اور دوپٹہ نہ پہننے پر شرمندہ کیا گیا تھا۔
یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب ان میں سے ایک طالبہ نے اس معاملے کو سوشل میڈیا پر شئیر کیا تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا۔
گزشتہ سال پنجاب کے وزیرِ تعلیم سید رضا علی گیلانی نے صوبے کے کالجز میں طالبات کے لازمی حجاب کی تجویز دی تھی، تاہم حکومتِ پنجاب نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔
صوبائی وزیر نے اپنی تجویز میں کہا تھا کہ حجاب پہننے پر ایسی طالبات جو حاضری یا نمبروں میں پیچھے ہیں، کو سر ڈھانپنے پر انعام دیا جائے۔
اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک ہونیورسٹی نے بھی منیجمنٹ سائنسز ڈیپارٹمنٹ کی طالبات کے لیے ’اخلاقی ڈریس کوڈ‘ بنا رکھا ہے، جس میں دوپٹہ یا اسکارف پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ملک بھر کی نامور یونیورسٹیز کی جانب سے طلبہ و طالبات کو دی جانے والے ڈریس کوڈز کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
آئی او بی ایم
اس یونیورسٹی نے طالبات کو ہدایت کی کہ وہ ‘حجاب’ والا لباس پہنیں۔
انتظامیہ نے واضح کیا کہ طالبات یونیورسٹی میں جینز صرف گھٹنے تک لمبی قمیض کے ساتھ ہی پہن سکتی ہیں، جبکہ چھوٹی آستین یا ہلکے کپڑے کی قمیض پہننا سختی سے منع ہے۔
بحریہ یونیورسٹی
یہاں شلوار قمیض پہننا طالبات پر لازمی ہے، لیکن طلبہ صرف جمعے کو ہی قومی لباس پہن سکتے ہیں۔
خواتین کے لیے ہر لباس کے ساتھ دوپٹہ یا اسکارف پہننا لازمی ہے، جبکہ جینز پر لمبی قمیض ضروری ہے، البتہ ٹائٹس پہننا سختی سے منع ہے۔
یونیورسٹی کے ایک طالبعلم عمر نے سوال کیا ‘میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ہم اپنا قومی لباس کیوں نہیں پہن سکتے۔ شلوار قمیض ہماری ثقافت کا حصہ ہے، کیا بحریہ پاکستان کا حصہ نہیں؟’
محمد علی جناح یونیورسٹی (ماجو)
محمد علی جناح یونیورسٹی میں ملبوسات کو 3 زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے، پسند کے لائق، قابل قبول اور ‘سختی سے ناقابل قبول’۔
طالبات کے لیے شلوار قمیض اور دوپٹہ پسندیدہ لباس ہے، ، جبکہ جینز کے ساتھ کُرتا یا قمیض دوپٹوں کے ساتھ قابل قبول، مگر جینز کے ساتھ ٹی شرٹس، بغیر آستین کی قمیض یا ہلکے کپڑے کی قمیض اور ٹائٹ ملبوسات سختی سے ممنوع ہیں۔
لڑکوں کے لیے قابل پسند ملبوسات کے آپشنز کافی زیادہ ہیں یعنی طلبہ اس یونیورسٹی میں شلوار قمیض یا پینٹ شرٹس پہن سکتے ہیں، ٹی شرٹس جینز کے ساتھ قابل قبول کیٹیگری کا حصہ ہے مگر لمبے بال، ٹائٹ ملبوسات، جیولری پہننا سختی سے منع ہے۔
اقرا یونیورسٹی
اقرا یونیورسٹی میں حیران کن طور پر ملبوسات کے حوالے سے طالبات کے مقابلے میں طلبہ کو زیادہ پابندیوں کا سامنا ہے،، جنہیں مغربی طرز کے لباس پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
نسٹ
نسٹ کا ڈریس کوڈ صرف طلبہ و طالبات کے لیے ہی نہیں بلکہ وہاں موجود اسٹاف کے لیے بھی ہے۔
یونیورسٹی میں موجود افراد کو ایسے لباس پہننے کی اجازت ہے جو مقامی اقدار کا خیال رکھیں، تاہم اس حوالے سے قوانین واضح نہیں کہ کونسا لباس پہنا جاسکتا ہے کونسا نہیں۔
یونیورسٹی کے کلاس رومز، کیفے ٹیریا اور یونیورسٹی دفاتر میں ‘نامناسب اور غیر اخلاقی ملبوسات’ پہننا سخت منع ہے۔
اسرا یونیورسٹی حیدرآباد
اس یونیورسٹی میں طالبات اور انتظامیہ کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں جو کہ طالبات پر اسکارف پہننا لازمی بناتا ہے، تاہم اس اصول کا اطلاق کبھی کبھار ہوتا ہے بلکہ اساتذہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
اسرا یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے اپنا نام نہ بتاتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی میں طالبات کے لیے اسکارف پہننا ضروری ہے، جبکہ انہیں کوٹ اور اسکارف مفت میں بھی دیے جاتے ہیں، تاہم صرف ایک کمپیوٹر ٹیچر لیب کلاسز میں یہ پہننے پر مجبور کرتے ہیں، اس کا اطلاق سختی سے نہیں ہوتا ماسوائے آپ میڈیسین کی تعلیم حاصل کررہے ہوں۔۔
ایک سابق طالبعلم رافع کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں ایسے ڈریس کوڈز بنائے تو ضرور گئے ہیں تاہم ان پر عملدرآمد کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا، ایسے کوڈز ہونے ہی نہیں چاہیے کیونکہ ٹیچرز اپنی پسند سے ’اخلاقی‘ زمرے میں آنے والے ملبوسات کو پہننے کی اجازت دیتے ہیں۔
ان ڈریس کوڈز کو فالو کیوں کیا جائے؟
جب طلبہ و طالبات اسکولز سے تعلیم مکمل کرکے یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں تو کئی تبدیلیاں ان کی زندگی میں سامنے آتی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ انہیں یونیورسٹی میں یونیفارم نہیں پہننا پڑتا، البتہ اس کے بعد انہیں پروفیشنل لائف کا حصہ بننے کے لیے تیار ہونا پڑتا ہے، جیسے دفاتر میں موجود ورکرز ایک طرح کے انداز کی ڈریسنگ کرتے ہیں۔
یہی وہ سوچ ہے جس کے باعث ہماری کئی یونیورسٹیز نے داخلے کے بعد طلبہ و طالبات کے لیے ڈریس کوڈز تیار کر رکھے ہیں۔
بحریہ یونیورسٹی کی ترجمان مہوش کامران کے مطابق ادارے میں ملبوسات کی پالیسی کے پیچھے یہ خیال ہے کہ طالبعلموں میں نظم و ضبط پیدا کیا جائے، ادارے کے احترام کو برقرار رکھا جائے جبکہ پاکستانی سماجی اور ثقافتی اقدار پر عمل کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا ‘لڑکوں کے لیے صرف جمعے کو شلوار قمیض پہننے کی پابندی اس لیے ہے کیونکہ یہاں خیبر پختونخوا اور سندھ کے مختلف حصوں سے بھی طالبعلم آتے ہیں، جنہیں کاروباری ماحول کے لیے مناسب لباس کی تعلیم دینا ضروری ہے جس میں شلوار قمیض شامل نہیں۔ اسی طرح خواتین کے لیے شلوار قمیض اور ڈوپٹہ ایک مناسب لباس ہے’۔
نسٹ ملبوسات کی اپنی پالیسی پر یہ موقف اختیار کرتی ہے ‘مناسب دفتری لباس کی بنیادی گائیڈلائنز سے آگاہی سے نسٹ کا مثبت چہرہ سامنے آتا ہے، جبکہ اچھی اخلاقیات، احترام، ثقافتی اقدار اور تحفظ کو بھی برقرار رکھنا ممکن ہوتا ہے’۔
اس حوالے سے نسٹ کی ایک ایک طالبہ آمنہ زمان نے کہا کہ طالبعلموں کے ملبوسات پر کنٹرول اتنا نقصاں دہ نہیں جتنا اسے ظاہر کیا جاتا ہے ‘ہمارے پہلے سال میں ہمیں ہدایت کی گئی کہ جینز نہ پہنیں اور میں نے ڈین سے اس بارے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کاروباری دنیا میں داخل ہوں گے تو آپ کسی دفتر میں جینز اور شرٹ پہن کر نہیں جاسکیں گے، یہ پابندی صرف لڑکیوں پر نہیں بلکہ لڑکوں کو بھی اس کا سامنا ہوتا ہے’۔
انہوں نے مزید کہا ‘یہ ہمارے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں، خصوصاً سوشل سائنسز اسکول میں، قوانین کا اطلاق اس لیے کیا گیا تاکہ کوئی بھی بہت زیادہ غیر اخلاقی لباس نہ پہن سکے’۔
بشکریہ ڈان اردو