تحریر: محمد حنیف
صبح اٹھا تو لورالائی سے خبر آ چکی تھی۔ دل کو یقین نہیں آیا لیکن تجربہ کہتا ہے بلوچستان سے آنے والی بری خبر عموماً درست نکلتی ہے۔
اسی طرح کی خبر چند برس پہلے آئی تھی جب پروفیسر صبا دشتیاری کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تب بھی خبر سوشل میڈیا پر ملی تھی لیکن بعد میں ٹی وی پر پٹی بھی چل گئی تھی۔ رد عمل تب بھی وہی تھا پروفیسر صاحب ایک عالم آدمی تھے۔ ان کے اردگرد بھی کتابی کیڑے قسم کی نوجوان ہوتے تھے ان سے کسی کی کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟
لیکن لورالائی سے آنے والی خبر کے بعد پہلا خیال دل میں آیا کہ خبر چلے گی یا نہیں۔ اس رات کو پروفیسر نوشین علی کا مضمون پڑھا تھا جس میں انھوں نے بہت دردمندانہ انداز میں سیاسی کارکنوں میں پھیلتے ہوئے خوف کا ذکر کیا تھا۔ ان خطوں کا ذکر کیا تھا جو لکھے گئے اور کبھی بھیجے نہ گئے۔ ٹیکنالوجی کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح دوسروں کا درد رکھنے والے اپنے ٹیلی فون اور لیپ ٹاپ سے خوفزدہ ہیں۔
اور پروفیسر صاحبہ نے خوف کے نتیجے میں چھا جانے والی خاموشی کا ذکر کیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ پہلے کسی سانحے کے بعد ہم کچھ لمحوں کی خاموشی اختیار کر کے دکھ کا اظہار کرتے تھے، اب کسی سانحے کے بعد کچھ لمحوں کے لیے بات ہو جائے تو غنیمت ہے۔
ڈان اخبار اٹھایا، فرنٹ پیج پر نظر ڈالی، خبر نہیں تھی۔ مجھے اندر کے صفحات یا کوئی اور اخبار کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ بہت عرصے سے کسی نیوز روم، کسی ادارے کے دفتر میں کام نہیں کیا تو کیا کہنے کی اجازت ہے اور کیا کہنے کی اجازت نہیں اس کا اندازہ ڈان اخبار یا بڑے ٹی وی چینلوں کے بلیٹن دیکھ کر ہو جاتا ہے یا کبھی کسی صحافی دوست سے ملاقات ہوجاتی ہے جو اندر کی خبر دیتا ہے۔
خبر عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ تنخواہ کتنے مہینوں سے نہیں ملی اور جو نہ ملنے والی تنخواہ ہے اس میں کٹوتی کتنی ہوئی ہے اور کتنے ساتھی نکال دیے گئے ہیں اور کتنے ابھی نکالے جائیں گے۔ خبریں دینے والے خود ایک اداس سی خبر بنے ہوئے ہیں۔
کراچی میں ادبی میلہ تھا جس میں شاعر اور صحافی کاشف رضا کے پہلے ناول کی رونمائی تھی اور مجھے ان کا انٹرویو کرنا تھا۔ کاشف رضا جیو میں سینیئر ایڈیٹر ہیں اور نصف شب کو جو بلیٹن چلتا ہے اس کے ایڈیٹر ہیں اور دبنگ ایڈیٹر ہیں۔ جو خبر جو خبریں دوسرے ٹی وی چینلوں پر نہیں چلتی وہ بھی چلا دیتے ہیں۔ انھیں شاید یہ زعم ہوتا ہے کہ ایسے خبریں دیکھ کر ناراض ہونے والے سو چکے ہوتے ہیں۔
مجھے لورالائی والے واقعے کی ٹائم لائن کا پتا نہیں تھا۔ میں نے پوچھا آپ کے بلیٹن تک خبر آ گئی تھی؟ انھوں نے کہا، جی آ گئی تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا چلائی تو انھوں نے مجھے ان نظروں سے دیکھا جن کا کراچی میں مطلب ہوتا ہے، چریا ہوا ہے کیا؟
کیسی باتیں کرتے ہیں، کاشف نے کہا۔ میں نے کہا اجازت ہو تو آپ کے سیشن میں ذکر کروں۔ انھوں نے کہا رمشا وسان کو بھی بےدردی سے ہلاک کیا گیا ہے اس کا ذکر بھی کرنا ہو گا۔ میں نے سیشن کے آغاز میں دونوں واقعات کا ذکر کیا اور ایک منٹ کی خاموشی کا اعلان کرنے والا تھا کہ مجھے پروفیسر نوشین علی کے الفاظ یاد آ گئے اور سوچا کہ ایک منٹ کی خاموشی یا ایک منٹ کی گفتگو۔
ہم دو سہمے ہوئے لکھاریوں نے حاضرین کے ساتھ مل کر فاتحہ پڑھی اور یہ دعا بھی کہ خدا خون کی پیاسی اس ریاست کے دل میں رحم ڈالے۔
پروفیسر صاحبہ نے اس اپنے مضمون میں بلھے شاہ کا بھی تذکرہ کیا جس نے تلقین کی تھی کہ چپ کر کے گزارہ کرو لیکن چپ رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے بھی بلھا بہت کچھ کہہ جاتا تھا۔
خوف پھیلانے والوں اور خوف کے سامنے سر جھکا کر خاموش ہو جانے والوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے جب خوف حد سے بڑھ جاتا ہے تو لوگ خوف سے بور ہو جاتے ہیں اور خاموشی ایک حد سے بڑھتی ہے تو نعرۂ مستانہ بن جاتی ہے۔
بشکریہ بی بی سی