تحریر : نذیر احمد ایڈوکیٹ
حکومت پاکستان نے پانچ فروری 2019 کو ملک میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا. ملک کے دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ریلیاں نکالی گئیں. مختلف تقاریب میں “کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے گونجتے رہے. قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کی عمارت پر ایک بینر آویزاں کیا گیا جس میں “مہذب دنیا کب تک کشمیریوں کے ساتھ بھارتی زیادتیوں پہ سوتی رہے گی” کے الفاظ مندرج تھے. گلگت اور دیگر اضلاع میں مقررین نے انڈیا پر خوب میزائل داغے.
یوم یکجہتی کشمیر دراصل جماعت اسلامی کی ایجاد ہے جسے 1991 میں میاں نواز شریف کی حکومت اور بعد آزاں ہر آنے والی حکومت نے قومی سطح پر منایا.
تنازعہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے تفصیل میں جائے بغیر بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے متعلق حقائق جاننا ضروری ہے. حقائق سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ مہذب دنیا کو تنازعہ کشمیر کے کس حصے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.
جموں و کشمیر بنیادی طور پر تین انتظامی یونٹس یا ڈویژنز پر مشتمل ہے.
1 : کشمیر ویلی 2 :جموں اور 3 : لداخ
کشمیر ویلی مسلم اکثریتی علاقہ ہے. جموں میں باسٹھ فیصد ہندو آبادی ہے جبکہ لداخ میں بدھسٹ اکثریت میں ہیں. رقبے کے لحاظ سے لداخ جموں و کشمیر کا سب سے بڑا انتظامی یونٹ ہے. جس کا رقبہ 86 ہزار 909 مربع کلومیٹر ہے. جموں کا رقبہ 26 ہزار 293 جبکہ کشمیر ویلی کا رقبہ 15 ہزار 948 مربع کلومیٹر ہے.
دو یوم قبل انڈین پرائم منسٹر نے لداخ کا دورہ کیا. لداخ میں نریندر مودی کا والہانہ اسقبال کیا گیا. بھارتی وزیراعظم نے تین ہزار پانچ سو کروڑ یعنی ساڑھے پینتیس ارب انڈین روپے لاگت کے مختلف منصوبوں کا افتتاح کیا. اس کے علاوہ ایشیا کے طویل ترین ذوجیلہ پاس ٹنل پر کام جاری ہے جس پر 6 ہزار 809 کروڑ یعنی تقریباً ستر ارب انڈین روپے لاگت آئے گی جو لداخ کو سری نگر سے ملائے گا.
گلگت میں ریلیاں نکالنے والوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ لداخ اور جموں کے عوام تحریک آزادی کشمیر سے لاتعلق کیوں ہیں یا صرف کشمیر ویلی میں چلنے والی تحریک لداخ اور جموں کے عوام کی شمولیت کے بغیر منطقی انجام تک پہنچے گی. جموں اور لداخ میں اگر کہیں آزادی کی آواز اُٹھتی ہے تو وہ آواز آزاد اور خودمختار کشمیر کے لئے اُٹھتی ہے. کشمیر ڈے منانے والے کیا یہ جانتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے سے کتنے کشمیری متفق ہیں. قانون ساز اسمبلی کی عمارت پر آویزاں بینر پر سوالیہ نشان کیساتھ پوچھے گئے سوال یعنی ( مہذب دنیا کب تک کشمیریوں کیساتھ بھارتی زیادتیوں پہ سوتی رہے گی؟؟) کا جواب ڈھونڈنے کے لئے کشمیر اور گلگت بلتستان کی 1947 کے بعد کی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے.
تاریخی حقائق جاننے کے بعد قارئین خود فیصلہ کریں کہ مہذب دنیا کی توجہ کا مرکز کشمیر ہونا چاہیے یا گلگت بلتستان.
اب چلتے ہیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی طرف, 26 اکتوبر 1947 کو مہارجہ ہری سنگھ نے بھارت کیساتھ الحاق کیا. معاہدے پر پنڈت جے ایل نہرو اور مہاراجہ ہری سنگھ نے دستخط کیےاور ایمرجنسی ایڈمنسٹریشن کے سربراہ شیخ عبداللہ نے معاہدے کی توثیق کی. پاکستان نے معاہدے کو متنازعہ قرار دیا اور دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی. انڈیا نے یو این سے رجوع کیا بعد آزاں یو این سی آئی پی کا قیام عمل میں آیا اور دونوں ممالک جنگ بندی پر راضی ہوگئے. دونوں ممالک یو این کی قرار داد تیرہ اگست 1948 اور ٹروس ایگریمنٹ پر متفق ہوگئے لیکن اُس پر عمل درآمد ہنوز نہیں ہو سکا. یو این نے دونوں ممالک کو علاقوں کا انتظام یو این سی آئی پی کی نگرانی میں لوکل اتھارٹی کو منتقل کرنے کا حکم دیا. اب ایک تقابلی جائزہ لیتے ہیں کہ کس ملک نے لوکل اتھارٹی کے قیام کی طرف پیش رفت کی.
* سال 1951 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا جس کے چیرمین غلام محمد صادق منتخب ہوئے. کشمیریوں نے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق آئین مرتب کیا جسے سترہ نومبر 1956 کو نافذ کیا گیا. گو کہ آئین ساز اسمبلی کے انتخاب پر بہت سارے اعتراضات ہو سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ انڈیا نے کشمیریوں کو اپنے بنائے ہوئے آئین کے تحت زندگی گزارنے میں مداخلت نہیں کی.
* کشمیر انڈیا کی واحد ریاست ہے جسکا اپنا آئین اور جھنڈا ہے.
* سترہ نومبر 1952 کو ارٹیکل 370 کو انڈین آئین کا حصہ بنایا گیا. یہ ایک ناقابل یقین حقیقت ہے کہ ارٹیکل 370 انڈین آئین شیخ عبداللہ نے تحریر کیا ہے. مذکورہ ارٹیکل کے تحت انڈین پارلیمنٹ الحاق کے معاہدے کے خلاف کوئی قانون پاس نہیں سکتی اور نہ ہی کشمیر سے متعلق معاملات پر قانون سازی سٹیٹ اسمبلی کی اجازت کے بغیر کر سکتی ہے.
* انڈین آئین کے ارٹیکل 35 کے تحت جموں و کشمیر کی سٹیٹ اسمبلی کو اختیار دیا گیا کہ وہ ریاست کے پشتنی باشنداگان کو ڈیفائن کریں اور اُن کے حقوق کی حفاظت کریں. مذکورہ ارٹیکل 1954 میں کشمیر کی سٹیٹ اسمبلی کی سفارش پر انڈین آئین کا حصہ بنایا گیا.
* کشمیری اپنے بنائے ہوئے آئین کے تحت علیحدہ شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے زندگیاں گزار رہے ہیں اور ساتھ انڈیا کی مرکزی حکومت / پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں.
اب چلتے ہیں گلگت بلتستان کی طرف, بغاوت گلگت کے پیچیدہ سوالات کو چھیڑے بغیر مان لیا جائے کہ یکم نومبر 1947 کو گلگت آزاد ہوگیا. 16 نومبر 1947 کو تحصیلدار محمد عالم نے گلگت پہنچ کر انتظام سنبھال لیا. بلتستان مئی 1948 میں آزاد کرالیا. جبکہ 13 اگست 1948 کی قرار داد اور ٹروس ایگریمنٹ میں پاکستان نے گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دیا اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے ساتھ ذیل کا سلوک کیا,
* 1970 تک پولیٹکل ایجنٹ اور ریزڈنٹ کی نگرانی میں ایف سی آر کے کالے قوانین کے ذریعے علاقے کا انتظام چلاتا رہا.
* بدنام زمانہ کراچی ایگریمنٹ مورخہ 28 اپریل 1949 عمل میں آیا جس پر صدر آزاد کشمیر سردار عبد القیوم خان, مسلم کانفرنس کے غلام عباس اور پاکستان کی طرف سے وزیر مشتاق گورمانی نے دستخط کیے اور گلگت بلتستان کے عوام کے علم میں لائے بغیر گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کیا گیا.
* 1994 تک مشاورتی کونسل کے نام پر یونین کونسل سے بھی کم اختیارات والی مشاورتی کونسل کے ذریعے گلگت بلتستان کا انتظام چلاتے رہے.
* 1994 میں ایل ایف او کے ذریعے یونین کونسل کے اختیارات کے مساوی گلگت بلتستان کے کونسل کا قیام عمل میں لایا.
* 2009 میں گورننس آرڈر کے ذریعے محرومی کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو خموش کرنے کی کوشش کی گئی.
* سترہ جنوری 2018 کو سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلے نے چھپے سوالات کو منظر عام پر لایا. جس کے بعد گلگت بلتستان میں سلف رول اور سٹیٹ سبجیکٹ کی چیخیں ہر طرف سنائی دیتی ہیں.
* قانون ساز اسمبلی کی عمارت پر بینر آویزاں کرکے وزیراعلی کشمیر چلے گئے جبکہ چار وزراء اور دو پارلیمانی سیکرڑیرز کشمیر سے لاتعلقی کا اظہار کرکے یوم حقوق گلگت بلتستان منانے کے لئے اسلام آباد میں مقیم ہیں.
کشمیر ڈے پر سرکاری ملازمین کے ذریعے کشمیریوں کیساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ریلیاں نکالنے والے صاحباں سے گزارش ہے کہ اس طرح کے غیر حقیقی عمل سے آپ حقائق پر مزید پردہ نہیں ڈال سکتے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر سکتے ہیں. جسم پر بہنے والا خون اور لاشیں تو نظر آتی ہیں لیکن احساس, شعور اور آزادی قتل ہو جائے تو انسانی انکھوں سے پوشیدہ رہتی ہے. ریاست پاکستان سے اتنی گزارش ہے کہ گلگت بلتستان میں محکومی کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو ظلم پر مبنی قوانین کے ذریعے دبانے کی بجائے عقلی اور زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کریں. آپ گلگت بلتستان کے عوام کو اپنا آئین بنا کر سلف رول کا حق نہیں دے سکتے تو کم از کم فیصلہ سازی میں گلگت بلتستان کے عوام کو شریک کرنے سے بھی گریز نہ کریں. ہم کشمیری بھائیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتے ہیں لیکن اسیران قفس ماتم ہی کر سکتے ہیں.