473

اہانت مذہب کے نام پر قتل کرنے کا لائسنس مانگا جا رہا ہے

25/03/2019 افراہیم خان 44 Views

اچھی زندگی وہ زندگی ہے جو اخلاقی زندگی ہو اور اخلاقی زندگی وہ زندگی ہے جہاں انصاف برابر کا ہو۔ کوئی بھی ہو اس کے ساتھ صنفی فرق نہ ہو نسل کا فرق نہ ہو، رنگ کا فرق نہ ہو، زبان کو فرق نہ ہو، اخلاق کی خوبی یہی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اسلام سے زیادہ اخلاق پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ بحیثیت دین یہ انسان کو اخلاقی بنانا چاہتا ہے، اخلاقی اس وقت بن سکتا ہے جب آدمی کو اس حفاظت کا احساس ہوجائے کہ جس ریاست میں یا جس معاشرے میں وہ زندہ ہے، وہاں اس کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

اک ریاست کے شہری کو یہ حق میسر ہے کہ اس کی نسل، اس کا رنگ، اس کا عقیدہ، اس کی زبان مختلف ہو، لیکن ریاست کے شہری ہونے کے ناطے اس کے حقوق برابر کے ہیں خاص طور پر انصاف کے۔ انصاف اس وقت حقیقی شکل میں رونما ہوتا ہے جب ریاست اور معاشرہ آپ کو زندہ رہنے کی گارنٹی دے نہ کہ عوامی کی من چاہی عدالت فیصلہ کرے۔ ہمارا معاشرہ یہاں بڑا ظلم و ستم کرتا ہے کہ جو ہمارے عقیدے میں شریک نہیں ہے وہ ہمارے انصاف کے معیار میں بھی شریک نہیں ہے، اس سے بڑی زیادتی کوئی اور نہیں ہوسکتی اور ہمارے ہاں اس زیادتی کے ہونے کی وجہ مُلا و جبہ و دستار ہی ہیں۔

آپ کسی پیمانے پر ناپ لیجیے زندگی کو، سیاسی ہو، معاشرتی ہو، تہذیبی، معاشی ہو، اگر انصاف نہیں ملے گا لوگوں کو تو اک خوف اور بے یقینی کی زندگی ہمیشہ نفرت اور تشدد کو جنم لیتی ہے۔ جب یقین اوراعتماد پیدا ہوتا ہے تو ہم مل کے جینا سیکھتے ہیں، ٹکڑوں میں نہیں بٹتے، جزیرے نہیں بناتے، دیواریں نہیں کھڑی کرتے، کسی دوسرے کو جنت اور جہنم کا سرٹیفیکٹ نہیں دیتے، فتوے نہیں لگاتے، استاد کی آواز کو آوازِ سگ کہہ اسے قتل نہیں کرتے، محبتیں بانٹتے ہیں، پل بناتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں۔

ہمارے ہاں مصیبت یہ ہوگئی ہے کہ جس آواز میں تعداد کم ہوتی ہے ہم سمجھتے ہیں وہ آواز ہے ہی نہیں۔ اس کم تعداد کو سیکولر، لبرل، فحش خیال، ایجنٹ اور نہ جانے کئی قسم کے تحائف و القابات سے نوازنے کے بعد دبانے کے کوشش ہوتی ہے۔ یہ ایک کمزور ریاست کی نشانی ہے کہ جو کم تعداد کی آواز کو پرزور آواز نہ سمجھے۔ آواز ہر کسی کی اتنا ہی حق رکھتی ہے جتنا کسی اکثریت کی آواز رکھتی ہو۔ بہت آسان ہے خفا ہوجانا اکثریت کا اقلیت سے۔

ذرا سی بات کو ہم ادھر سے ادھر موڑ سکتے ہیں۔ ذرا سی بات کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ بات ہمارے خلاف ہوگئی ہے۔ یہ بات تو ہمیں اچھی نہیں لگی، نتیجتاً چلتے پھرتے ایٹم بم معاشرے میں پھٹتے رہیں اور کمزور آواز ختم ہوجائے گی مگر نہیں یہ کمزور آواز تمام ایذا نصیبیوں کا سفر طے کرنے کے بعد منزلِ مقصود تک پہنچے گی۔

یہ بات آج کل میرے ذہن کے ہر دریچے کو ڈس رہی ہے کیسے معاشرے میں ہر شخص خوبخود قوانین طے کر رہا ہے۔ کیا ہم ریوڑ کا روپ دھار چکے ہیں کبھی کبھی سوچتا ہوں ریوڑ بھی ہم سے کئی درجے بہتر جہاں جانور مالک کا کچھ نہ کچھ لحاظ رکھتے ہوئے راستے میں اپنا ہوس پورا نہیں کرتے۔ ہم نے تو اپنا ہوس پورا کرنے کے لیے مذہب کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ مذہب ڈھال کب بنا ہے۔ اس ملک میں ہم نے اپنے آپ کو اتنا اختیار کیسے دے دیا ہے کہ پیمانے طے کریں فلاں گستاخِ رسول ہے، فلاں ایجنٹ ہے، فلاں غدار ہے اور فلاں واجب القتل۔ گستاخی کے نام پر قتل ایک ایسی ڈھال بن چکا ہے کہ اس کا خلاف بات کرنے والے بھی محفوظ نہیں، سلمان تاثیر کی مثال لے لیجیے۔ نتیجتاً ہم ایک ایسے اندھیرے میں دھکیلے گئے ہیں کہ جس طرف نظر دوڑائیں تاریکی کی بادشاہت ہے بقول مولانا جامی کے

’شب رفت و سحر نشُد، شب آمد۔ ‘

پچھلے دنوں بہاولپور کی ایک یونیورسٹی میں بی۔ اے (آنرز) انگلش کے ایک طالبعلم خطیب حسین اور ٹیچر پروفیسر خالد حمید کے درمیان اس بات پر تکرار ہوئی کہ سٹوڈنٹس کو پارٹی دینا اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ طالبعلم کو استاد کی پارٹی کے حق میں بات کرنا نا مناسب لگا تو اس نے طیش میں آکر اس پر چھروں کے اس بے دردی سے وار کیے کہ زمینِ چمن اپنے ہونے پر ندامت میں سر جھکائے لم یزل سے اوپر بیٹھ کر تماشا کرنے کا گلہ کرنے لگی۔ طالب علم نے پکڑے جانے کے بعد بیان دیا کہ ٹیچر ہمیشہ اسلام کے خلاف باتیں کرتا تھا اس لیے اس نے مارا اور وہ مارنے پر خوش بھی ہے۔ جب پوچھا گیا کہ ملک میں قانون نام کی ایک چیز بھی ہے تو جناب نے فرمایا کہ کون سا قانون، قانون تو گستاخوں کو رہائی دیتا ہے۔

یہ طالبعلم کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ایک مذہبی جماعت کا فعال کارندہ رہا ہے۔ اس کا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے کہا تھا کہ ہمارا ہر ایک کارکن چلتا پھرتا ایٹم بم ہے۔ اس طالبعلم کا یہ عمل کوئی پہلا واقعہ نہیں۔

دسمبر 2012 میں عوام کے جمِ غفیر نے پولیس کے ناکے توڑتے ہوئے سٹیشن کے اندر گھس کر ایک قیدی کو اس لیے قتل کیا کہ انہوں نے سنا ہے اس نے قران پاک کی بے حرمتی کی ہے۔ مہرآباد کی 14 سالہ رمشا مسیح کو گستاخی کا سرٹیفیکٹ عوام کی عدالت نے دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے جب گستاخی کے الزام میں سزائے موت پر سوال اٹھائے تو اس کے خلاف 2013 میں ملتان کے ایک شہری نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرائی۔

مسیح جوڑے کو انتہائی بے دردی سے جلایا گیا۔ مشال خان کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں سفاکیت کے ساتھ قتل کیا گیا اور اوپر سے خوشی کے شادیانے بجائے گئے قاتلوں کو گل پاشی کرکے خوش آمدید کہا گیا۔ مختصراً، الجزیرا نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق 1986 سے 2010 تک 1274 لوگوں کو گستاخی کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور ان میں سے آدھے سے زیادہ لوگوں کو یہ سرٹیفیکٹ عوامی جمِ غفیر نے دیا۔

بہالپور میں پروفیسر کا قتل بہت سارے لوگوں کے لیے ایک عام سا واقعہ ہوگا لیکن اس دفعہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں۔ جب قانون کا سیکشن 295 اس سلسلے میں سب کے سامنے واضح ہے پھر بھی ہم اپنی عدالتیں کیوں لگاتے ہیں۔ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ فلاں نے گستاخی کی ہے، فلاں نے بے حرمتی کی اور پاکستان کا قانون ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو ان کو یہ حق کس نے دیا کہ خود فیصلہ کریں۔ ان کو قانون تبدیل کرنے کے مطالبات کرنے چاہیے نہ کہ کسی کو جنت اور جہنم کی سرٹیفیکٹ دیں۔

خطیب حسین پیدا کرنے والوں سے سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی ذاتی رنجش کی وجہ سے دوسرے کو قتل کردیا اور بعد میں گستاخی کا الزام لگا دیا تو اس کا خون کون اپنے سر لے گا؟ کون مرے ہوئے کو دوبارہ زندہ کرکے صفائی دینے کا موقع دے گا۔ یہاں جہالت تو اتنی اوج پہ ہے کہ مقتول کی فیملی کو بھی دھمکایا جاتا ہے۔ خطیب حسین کے پروفیسر کو قتل کرنے کے بعد اس کے چہرہ پر ندامت نام کی کسی چیز کا نہ ہونا اور انتہائی متکبرانہ انداز میں استاد کی باتوں کو آوازِ سگ قرار دے دینا معاشی، معاشرتی، اور اخلاقی طور پر تباہ حال معاشرے کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ پچھلے ستر سالوں میں ہم نے جو نسل تیار کی ہے وہ معاشرے کی کسی بھی فرد پر کسی بھی وقت چھری چلا سکتی ہے۔

ہم اسے رواداری نہیں کہہ سکتے کہ معاشرے کا کوئی بھی فرد کھڑے ہوکر دوسرے کو قتل کردے اور ریاست خاموش رہے۔ ریاست ہر قسم کی شدت پسند سوچ کے پھیلاؤ کو نہ صرف روکے بلکہ اس کے دوبارہ پیدا نہ ہونے کی بھی یقین دہانی کرائے۔ ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ ہر فرد کو رواداری، احترام اور ایک پرسکون زندگی کا وعدہ کرے۔ پرسکون سے مراد یہ نہیں ہے کہ اونچ نیچ نہیں ہوگی، نفع نقصان نہیں ہوگا۔ سب کچھ ہوگا مگر آپس کی مفاہمت، آپس کی مصالحت، انصاف کی بروقت فراہمی، لوگوں کو زندگی کی گارنٹی، ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ دراصل کسی بھی ریاست اور کسی بھی معاشرے کا سب سے بڑا حوصلہ ہوتا ہے اور اسی سے معاشرے آگے بڑھتے ہیں، اگر دولت سے معاشرے ترقی کرتے، تو بہت سے معاشرے آج ماضی کا حصہ نہ ہوتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں