Baam-e-Jahan

پاکستان تحریکِ انصاف کا حکومت میں ایک سال: کتنا کامیاب، کتنا ناکام؟

عابد حسین

گذشتہ برس جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 18 اگست کو وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا تو پوری قوم کی پر امید نظریں ان پر مرکوز تھیں۔

سنہ 2013 سے لے کر سنہ 2018 کے الیکشن ہونے تک، اُن پانچ سالوں میں عمران خان اور ان کی جماعت نے جہاں ایک جانب ماضی کے حکمرانوں پر سخت ترین تنقید کے تیر برسائے، تو وہیں ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی جماعت کو اس حیثیت میں پیش کیا جو برسر اقتدار آتے ہی صرف 90 دن میں ملک کے حالات ‘تبدیل’ کر دے گی۔

اس پس منظر میں بی بی سی نے حکومت کے بارہ ماہ مکمل ہونے پر حکمراں جماعت کے رہنماؤں اور چند تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے ایک سادہ سا سوال پوچھا: ’گذشتہ ایک سال میں پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی کیا رہی اور سب سے بڑی ناکامی کیا تھی؟‘

کامیابی اور ناکامی جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ کامیابی اور ناکامی کا تعین کرنا آسان نہیں۔ کچھ چیزیں، مثلاً معیشت کا تو گذشتہ سالوں سے موازنہ کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کامیابی یا ناکامی کیا ہے، لیکن کئی ایسی چیزیں ہیں جیسے کہ حکومتی امور، جنھیں عموماً ‘گُڈ گوورننس’ کہا جاتا ہے جو ان اعداد و شمار کی پیمانوں پر پورا نہیں اترتیں۔

اُس صورت میں جواب دینے والوں کی طرفداری ابھر کر سامنے آ جاتی ہے اور ان کے جوابات کی نوعیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ آیا وہ حکومت کے حلیف ہیں یا ناقد۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے میڈیا افتخار درانی سے جب کارکردگی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے ناکامیوں کے حوالے سے تو کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ کامیابیوں کی ایک 32 نکاتی فہرست بھیج دی جس میں انھوں نے خارجہ پالیسی کی کامیابی، فاٹا کا انضمام، سادگی اور کفایت شعاری مہم کی مدد سے ہونے والے بچت، کرپشن پر کریک ڈاؤن، صحت انصاف کارڈ، غربت کے خاتمے کے پروگرام، ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے شجر کاری مہم اور کئی دیگر کامیابیوں کا ذکر کیا۔

دوسری جانب جب چند تجزیہ نگاروں سے بات ہوئی تو انھوں نے دوست ممالک کی حمایت حاصل کرنا، خارجہ تعلقات کی بہتری کو کامیابی گردانا اور سعودی عرب، قطر اور چین کی جانب سے معاشی امداد حاصل کرنے کی تعریف کی۔

کرتارپور راہداری کو کھولنا اور وزیر اعظم کی جانب سے غربت کے خاتمے کے منصوبے ’احساس‘ اور بے گھر افراد کے لیے ’پناہ گاہ‘ پروگرام کے انعقاد کو بھی سراہا گیا۔

مگر ساتھ ساتھ ان ماہرین نے معاشی شعبے کو بڑی ناکامی قرار دیا اور کہا کہ ملک کی معاشی حالات کو جاننے کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے کے پاس اتنی تاخیر سے جانا غلطی تھی۔
’سب سے بڑی کامیابی، ویزا حصول کی آسانی‘
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری سے جب بی بی سی نے یہ سوال کیا تو ان کا جواب بڑا واضح تھا۔

ان کے مطابق گذشتہ 12 ماہ میں ان کی حکومت کی سب سے اہم کامیابی پاکستان کے لیے ویزا حاصل کرنے کے نظام میں آسانی لانا تھا۔

سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات نے اس بارے میں بتایا کہ حکومت نے بہت ہی قلیل عرصے میں کئی سالوں سے چلی آنے والی پالیسی کو تبدیل کیا ہے اور اس کے نتیجے میں کاروباری افراد بزنس ویزا فوراً حاصل کر سکتے۔

انھوں نے کہا کہ سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ چین، ملائیشیا، ترکی، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے شہریوں کو ‘ویزا آن ارائیول’ یعنی پاکستان پہنچنے پر ان کو فوراً ویزا دیا جا سکتا ہے۔
وفاقی وزیر کے مطابق ان پانچ ممالک سے ابتدا کی گئی ہے لیکن اگلے چھ ماہ میں اس تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔

‘اس پروگرام کی کامیابی کا اندازہ آپ ایسے لگائیں کہ گذشتہ تین ماہ میں پاکستان نے 16 ہزار ای ویزے جاری کیے ہیں۔’

وزارت داخلہ کی ویب سائٹ کو دیکھیں تو وہاں پر درج تفصیلات کے مطابق اس وقت ای ویزا صرف پانچ ممالک کے شہریوں کو دیا جا رہا ہے جبکہ 50 ممالک کے شہریوں کے لیے ویزا آن ارائیول کی سہولت ہوگی۔

اس کے علاوہ ویب سائٹ پر 175 ممالک کی فہرست درج ہے جہاں کے شہری مستقبل میں ای ویزا حاصل کر کے پاکستان آ سکتے ہیں۔

حکومت کے اس اقدام سے قبل صرف 24 ممالک کو پاکستان کے لیے ویزا آن ارائیول کی سہولت میسر تھی اور ای ویزا کا نظام وضع نہیں تھا۔

دیگر قابل ذکر کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کے برعکس اس حکومت کے ایک سال میں اب تک کرپشن کا کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

پناہ گاہ پروگرام کی کامیابی
وفاقی وزیر برائے ڈاک اور کمیونیکیشن مراد سعید نے بی بی سی کے سوال پر کہا کہ ان کی حکومت کی بڑی کامیابی ’اب تک کسی کرپشن سکینڈل کا سامنے نہ آنا‘ ہے۔

ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی وزارتوں کی کارکردگی بیان کی جس میں ان کے مطابق محکمہ ڈاک نے ایک سال میں 18 ارب روپے کا منافع حاصل کیا جو کہ ماضی کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ ہے اور وزارت کمینونیکیشن نے 52 فیصد اضافے کے ساتھ 43 ارب روپے کا منافع حاصل کیا۔

مگر مراد سعید کے مطابق حکومت کی سب سے بڑی کامیابی وزیر اعظم کا ’پناہ گاہ‘ پروگرام ہے۔

’ہماری حکومت نے جب ذمہ داری سنبھالی تو ہماری کوشش تھی کہ ہم مدینے کی ریاست کے طرز پر پاکستان کو بنائیں اور اس سلسلے میں ہمارا سب سے اہم قدم پاکستان کے بڑے شہروں میں جگہ جگہ ‘پناہ گاہ’ پروگرام کے تحت غریب عوام کو چھت فراہم کرنا ہے جس کی مدد سے کوشش کی جا رہی کہ کوئی شخص کھلے آسمان کے نیچے نہ سوئے۔‘

’مدرسہ اصلاحات ایک اہم قدم‘
وفاقی وزیر برائے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے اس سوال پر کہا کہ ان کے نزدیک اس حکومت کی بڑی کامیابی مدرسہ تعلیم کی نظام میں اصلاحات کے بارے میں پیشرفت ہے۔

شفقت محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایسے پروگرامز کے برعکس اس بار بڑا فرق یہ ہے کہ مختلف مسالک کے علما نے حکومت کے ساتھ متعدد میٹنگز کی اور تمام سٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے ایک معاہدے پر اتفاق ہوا ہے جو کہ آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

‘ہمارا مقصد ہے کہ ملک میں تعلیمی نظام کو یکساں بنایا جائے۔ اس سلسلے میں ہم نے پہلے تنظیم وفاق المدارس سے کئی طویل میٹنگز کی ہیں اور اس کے بعد ہم متفقہ طور پر معاہدے پر دستخط کرنے پر کامیاب ہوئے ہیں۔

ماضی کے بر عکس ہم ان کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ ہم مدارس کا کنٹرول اپنانے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ ہمارے مقصد صرف ان کو نظام کے ساتھ چلانا ہے تاکہ یکساں قانون ہو اور ان کی پاسداری کی جائے۔’

’نیت اچھی، مگر منصوبہ بندی کا فقدان‘
پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں جب ماہرین اور تجزیہ کاروں سے کیا گیا تو بیشتر کی رائے متفق تھی کہ حکومت کی نیت پر کوئی شک نہیں مگر ان کی اب تک کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں مقیم جنوبی ایشیائی امور کے ماہر، عزیر یونس نے حکومت کی کامیابیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے حالیہ مہینوں میں تقریباً نو ارب ڈالر کے قرضے لیے ہیں جس سے کہا جا سکتا کہ معاشی بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔

لیکن ان کے نزدیک یہ ایک کامیابی ہے کیونکہ یہ قرضے پاکستان کے قریبی دوستوں سے لیے گئے ہیں اور پاکستان کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے یہ امداد لازمی تھی۔

‘پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد سے ڈالر کی قیمت میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور روپے کے قدر تاریخ کی سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔ کئی لوگ اسے ناکامی گردانیں گے لیکن میرے خیال میں یہ ان کی کامیابی ہے کیونکہ انھوں نے ایک مشکل، مگر حقیقت پسندانہ فیصلہ لیا۔اس سے عوام کو تکلیف ضرور پہنچے گی مگر یہ کرنا ضروری تھا۔’

آکسفورڈ یونی ورسٹی سے منسلک ماہر معاشیات شاہ رخ وانی نے حکومت کی کامیابیوں کے حوالے سے کہا کہ صرف ایک سال کی کارکردگی سے یہ اندازہ لگانا قدرے دشوار ہوگا کہ وہ کتنے کامیاب ہوئے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہ رخ وانی نے کہا کہ پاکستان کی معیشت بوسیدہ اور کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے اور اس وجہ سے وہ موجودہ حکومت کو ملک کی ابتر معاشی صورتحال کا ذمہ دار نہیں سمجھتے۔

’ہاں اگر سوال یہ ہو کہ کیا اس حکومت نے ان بنیادوں کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی اصلاحی منصوبہ بندی کی ہے تو ہمیں اس سمت میں کچھ اشارے ضرور ملتے ہیں۔’
صوبہ پنجاب کے بلدیاتی نظام کے قانون کی بات کرتے ہوئے شاہ رخ وانی نے اسے ایک اہم قدم قرار دیا اور کہا کہ اگر اس قانون کا صحیح معنوں میں اطلاق ہو جائے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

تجزیہ نگار اور وکیل ریما عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آ کر پاکستان میں ٹیکس چوری کے کلچر کو ختم کرنے کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا ہے جو کہ قابل تعریف ہے کیونکہ یہ مسئلہ پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔

‘ہم اس بارے میں بحث کر سکتے ہیں کہ اس سلسلے میں ان کے اقدامات کیسے ہیں اور ان کے اہداف حقیقت پسندانہ ہیں یا نہیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت اس سیکٹر میں بہتری لانے کے لیے پوری طرح کوشاں ہے اور یہ درست سمت میں ایک اہم قدم ہے۔’

پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار رضا رومی کے نزدیک پی ٹی آئی حکومت نے خارجہ محاظ پر اہم پیش قدمی کی ہے، بالخصوص امریکہ سے تعلقات میں بہتری لانا ایک اہم کامیابی تھی۔

‘گذشتہ چند برسوں میں پاکستان اور امریکہ کہ تعلقات ابتری کی جانب مائل تھے لیکن اس حکومت نے ان تعلقات کو عمران خان کے حالیہ دورے کے بعد بڑی حد تک بہتر بنایا ہے۔ یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس کا کتنا سہرا عمران خان کو جاتا ہے اور کتنا پاکستان کی فوج کو ، لیکن وہ مل جل کر حکومت چلا رہے ہیں اس لیے یہ حکومت کی ہی کامیابی تصور کی جائے گی۔’
ناکامیاں
اقتدار میں آنے کے بعد سے پی ٹی آئی کو حزب اختلاف سے تابڑ توڑ تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

معیشت کے شعبے میں خاطر خواہ پیشرفت نہ کرنے اور غیر ضرورتی اخراجات کی کمی کے لیے کفایت شعاری کی مہم سے لے کر حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف مبینہ بدعنوانی کرنے پر کاروائی، اس حکومت کے ہر فیصلے اور ہر قدم پر ناقدین کی جانب سے نکتہ چینی دیکھنے میں آئی ہے۔

بی بی سی نے جب غیر جانبدار تجزیہ کاروں اور ماہرین سے اس حوالے سے سوالات کیے تو اُن کے پاس بھی اس حکومت کی کمزوریوں اور ناکامیوں کی لمبی فہرست موجود تھی لیکن وفاقی وزیر فواد چوہدری کے علاوہ، دیگر حکومتی اراکین کی جانب سے ناکامیوں کے بارے میں مفصل جوابات نہیں دیے گئے۔

’متوسط طبقے کی امیدوں پر پورے نہیں اترے‘
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کی سب سے زیادہ مقبولیت پاکستان کے مڈل کلاس یعنی متوسط طبقے میں ہے اور انھی کی حمایت کی مدد سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی مگر وہ معاشی صورتحال کے پیش نظر ان کے لیے کوئی سہولت نہ دے سکی۔
‘ہمارے سب سے زیادہ ووٹرز اُس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی تنخواہیں ماہانہ 30 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک ہے اور انھی کی بدولت ہمیں انتخابات میں جیت ملی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ معیشت کے حالات اتنی مخدوش ہیں کہ ہم ان کی آسانی کی لیے کچھ نہیں کر سکے۔’

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ان کی نظر میں ایک اور شعبہ جہاں ان کی حکومت اپنے اہداف مکمل نہ کر سکی وہ سرکاری اداروں میں اصلاحات کا ہے۔

‘جب ہماری حکومت آئی تو اقتصادی حالات ایسے تھے کہ ہماری ساری توجہ ان پر مرکوز تھی اور اُس کی وجہ سے ہم ان اصلاحات پر کام نہ کر سکے جتنا ہمارا ارادہ تھا۔’

البتہ وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ وہ حکومت کے اب تک اقدامات میں سے کسی کو ناکام نہیں کہیں گے کیونکہ ہر شعبے میں کام ضرور ہو رہا ہے۔

‘ہمیں سب سے پہلے معیشت کو دیکھنا تھا اور ہم نے آتے کے ساتھ ہی اس پر کام شروع کر دیا ہے لیکن یہ فوراً ٹھیک ہونے والی چیز نہیں ہے۔ میں اس کو ناکامی نہیں سمجھتا۔’

’لگتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے‘
ناکامیوں کے حوالے سے سوال پر عزیر یونس کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی اقتدار میں بغیر تیاری آ جانا تھا۔
‘ایک ایسی پارٹی جو اقتدار میں آنے کے لیے پانچ سال سے تیاری کر رہی تھی، ان کو نہ صرف اقتدار کی خواہش تھی بلکہ انھیں انتخابات میں اپنی کامیابی پر یقین تھا، انھوں نے کوئی تیاری ہی نہیں کی تھی۔ اسد عمر کو دیکھ لیں، سب کو علم تھا کہ وہ وزیر خزانہ بنیں گے لیکن ان کا منصوبہ کیا تھا؟’

عزیر یونس نے معاشی حالات پر حکومتی کارکردگی کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے کہا کہ مہنگائی میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمت میں اضافے کا براہ راست اثر سب سے غریب طبقے پر ہوگا۔

‘دوسری طرف دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ حکومت نے ٹیکس کی مد میں آمدنی کی بات تو بہت کی ہے لیکن سٹیٹ بینک رپورٹ کے مطابق کوئی بہتری نظر نہیں آتی اور اس کی وجہ سے سامنے والے اثرات کا ایک ڈومینو ایفیکٹ آئے گا اور مجھے نہیں لگتا کہ اس سے نپٹنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی ہے۔’

شاہ رخ وانی نے بھی پی ٹی آئی حکومت کی ناکامیوں پر تبصرہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کو متعدد شعبوں میں چیلنجز کا سامنا ہے۔

‘سول سروس یعنی بیورو کریسی میں اصلاحات لانا، تعلیم و تحقیق کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا، اور کاروبار کرنے والوں کے لیے سودمند ماحول فراہم کرنا اہم ترین ترجیحات ہونی چاہیے۔ لیکن موجودہ حالات دیکھتے ہوئے میرا نہیں خیال کہ حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے۔’

ریئل سٹیٹ کے شعبے میں کام کرنے والے تجزیہ کار ابراہیم خلیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے اعلان کے مطابق ‘نیا پاکستان ہاؤسنگ’ منصوبہ اونچی عمارتوں پر مشتمل ہوگا جو کہ ایک قابل ستائش قدم تھا البتہ پنجاب میں کم آمدنی والوں کے لیے متعارف کرائے گئے منصوبے کم اونچائی والے مکانات (دو منزلہ) کے ہیں جو کہ ماحول کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔
ہاؤسنگ کے شعبے میں اعلان کیے گئے منصوبوں پر تنقید کرتے ہوئے ابراہیم خلیل کا کہنا تھا کہ کم آمدنی والے طبقے کے نام پر بنائے گئے منصوبوں میں اس طبقے کے لیے فائدہ نظر نہیں آیا۔

‘چند شہروں میں سب سے کم قیمت والا مکان تقریباً 16 لاکھ کا ہے اور اس پر 20 سال کا قرضہ ہے۔ موجودہ شرح منافع پر ماہانہ قسط 20 ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے جو کم آمدنی والے طبقے کی گنجائش سے زیادہ ہے ۔ کم آمدنی والے کون لوگ ہوں گے جو ماہانہ یہ قسط دے سکیں گے؟’

ابراہیم خلیل نے کہا کہ حکومت کو چھوٹے پیمانے کی ایک یا دو اسکیموں سے آغاز کرنا چاہیے اور ان پائلٹ پراجیکٹ سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کونسا ماڈل کام کرتا ہے۔ ‘ایک دفعہ حکومت ایک کامیاب ماڈل بنا لیتی ہے، تو پھر اس کو پورے ملک میں پھیلانا آسان ہوگا۔’

‘حکومت میں ہو کر بھی اپوزیشن جیسی باتیں کرتے ہیں’
رضا رومی نے بھی معاشی حالات کی گراوٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن ان کے نزدیک حکومت کی سب سے بڑی ناکامی سیاسی استحکام کے لیے کوشش نہ کرنا ہے۔

رضا رومی نے کہا کہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ایک مٹھی بھر اکثریت کے ساتھ بنائی گئی حکومت ہے اور ان کے ساتھ دیگر مختلف قوتوں کی حمایت ہے، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومتی امور، بالخصوص سلامتی، خارجہ، داخلہ اور ٹیکس پالیسی جیسے معاملات کے لیے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔

‘حکومت کی یہ ایک بڑی خامی رہی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر بھی گذشتہ سال کے انتخاب سے پہلے کا بیانیہ چلا رہی ہے اور پی ٹی آئی والے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن جیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومتی امور پر سنجیدہ نہیں ہیں۔’

ریما عمر کے نزدیک اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی عوام کے حقوق، بالخصوص آزادی اظہار رائے کو سلب کرنا ہے۔ ان کے مطابق گھٹن کا یہ ماحول اتنا زیادہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سخت ترین ناقدین نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ حالات ہوں گے۔

‘پہلے صرف ریاست پر سوال اٹھائے جانے پر ممانعت تھی، اب ریاست اور حکومت کو یکجا کر دیا گیا ہے اور کسی معاملے پر حکومتی بیانیے پر سوال اٹھانے کی جگہ گھٹتی جا رہی ہے۔’

بشکریہ بی بی سی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے