تحریر: صلاح الدین
جنسی زیادتی کا مطلب ہے کوئی بھی ایسا جنسی یا جنسیت زدہ فعل جس سے کوئی شخص ناگواری ڈر یا خوف محسوس کرے۔ کوئی ایسا رویہ جس کے لیے ایک شخص نے آمادگی نہ ظاہر کی ہو یا پھر اس نے اس کا انتخاب نہ کیا ہو۔
جنسی زیادتی ایک شخص کے اعتماد کو دھوکہ دینا اور اس حق کو سلب کرنا ہے جو کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں رکھتا ہے۔ جنسی زیادتی حق اور طاقت کا ناجائز استعمال ہے۔
جنسی زیادتی کے افسوسناک واقعات ملک کے ہر شہر اور قصبے میں رونما ہورہے ہیں لیکن میں یہاں گلگت بلتسان کے دور افتادہ گائوں یاسین میں بڑھتے جنسی زیادتی کے واقعات اور اس کے پس پردہ حقائق پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ چند سالوں میں یاسین میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بچوں میں منشیات کے استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ یہاں میں دو معاشرتی برائیوں کا ایک ساتھ ذکر کر رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کچھ شرپسند عناصر بچوں کو اپنے ہوش کا نشانہ بنانے کے لیے منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ یاسین میں جنسی زیادتی کے کئی واقعات رونما ہونے کے باوجود انتظامیہ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ والدین کی اپنے بچوں کے بارے میں عدم دلچسپی اور کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں کم عمر بچوں کا منشیات کی طرف راغب ہونا انتہائی تشویشناک ہے۔ اس وقت یاسین میں جو ماحول پیدا کیا گیا ہے وہ انتہائی غیر مناسب اور مایوس کن ہے۔
والدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کے بچے اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل کود کے لیے جائے۔ 12سالہ بچے کا 28/25 سالہ لڑکوں کے ساتھ دوستی کرنا یا ان کے ساتھ کر چلنا، رات کو دیر سے گھر آنا، سگریٹ پینا اور گھر والوں کو علم نہ ہونا لڑکے کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہوتا ہے۔
یہ بات ان دنوں دیکھنے میں آئی ہے کہ کچھ لڑکے (شرپسند) چھوٹی عمر کے بچوں سے دوستی کرتے ہیں اور نہ صرف ان کے ساتھ غیر مہذبانہ گفتگو کرتے ہیں بلکہ ایسی محفلوں میں بٹھاتے ہیں جو بچوں کو زیب نہیں دیتا۔ ایسی محفلوں میں سگریٹ نوشی، شراب نوشی، چرس اوار دیگر منشیات شامل ہیں۔ ابتدا میں بچوں کو منشیات کا عادی بنانے کے لیے "دوستی” واسطہ دیتے ہیں اور اس رشتے کا استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر تم نے "ایک پیک نہیں پی "تو میں ناراض ہوجائوں گا۔ درحقیقت بات دوستی یا ناراضگی کی نہیں ہوتی بلکہ اس بچے کو منشیات کا عادی بنانا ہوتا ہے۔ نشے کا عادی بنا کر نہ صرف اس بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے بلکہ نشے کی حالت میں اُسکی ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے۔
بی بی سی کے حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 9 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ سب ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں۔ سگریٹ نوشی،چرس اور شراب کا استمال وہ بھی کم عمری میں آپ خود اس معاشرے کی بےحسی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے نہ متعلقہ ادارے، سول سوسائٹی اور نہ ہی والدین کوئی اقدامات کر رہے ہیں۔
اسیے درندوں کے بچوں کو بچانے کے لیے قانوں نافذ کرنے والے اداروں پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ والدین کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانا چاہیے والدین کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ اُسکا بیٹا/بیٹی کب اور کہاں جارہا ہے؟ کن لوگوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے؟
اپنے بچوں کی خبر رکھنا اور اُن کی مصروفیات پر نظر رکھنا والدین کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اپنے بچوں کی اچھی تربیت اور رہنمائی کریں تاکہ آنے والے وقت میں وہ آپکا فخر بن سكے۔ بچوں سے دوستانہ ماحول میں بات کریں تاکہ وہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا ذکر آپ سے کر سکیں۔