Baam-e-Jahan

چترال میں نوجوان لڑکیوں کٰی خود کشیوں میں اضافہ

ایک ہفتہ کے دوران چار لڑکیوں نے جان دے دی. گزشتہ نو مہنوں میں 14 لوگوں نے خود کشی کیں، خواتین میں خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی رحجان پر عوام تشویش میں مبتلا

رپورٹ: گل حماد فاروقی

چترال میں خواتین بلخصوص پڑھی لکھی نوجوان لڑکیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان سے لوگوں میں شدید پریشانی اور تشویش پائی جاتی ہے.رواں ہفتے میں دو مزید لڑکیوں نے مبینہ طور پر اپنی جان لے لی.
ایون میں دو لڑکیوں نے پچھلے دنوں خودکشی کی تھی۔جونالی کوچ میں ڈبل ایم اے پاس لڑکی نے دریائے چترال میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی. مولکہو میں ایک لڑکی نے بارہ بور بندوق سے فائرنگ کرکے زندگی کا خاتمہ کیا۔
پولیس اور مقامی لوگوں کے مطابق چترال کے بالائی علاقے مو لکہو میں جماعت نہم کی ایک طالبہ نے بارہ بور بندوق سے گولی چلاکر زندگی کا حاتمہ کرلیا۔
ملکہو تھانہ کے انچارج سب انسپکٹر گل محمد کے مطابق فصیحہ سکنہ گوہ کیر اپنی بہن کے گھر موردیرگاؤ ں گئی تھی- وہاں انھوں نے مبینہ طور پر بارہ بور چھرے دار بندوق سے خودکشی کرلی۔ ملکہو پولیس نے فصیحہ کی لاش تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال بونی میں پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالہ کیا جو انھوں نے سپرد خاک کیا گیا۔
پولیس اس سلسلے میں تفتیش کررہی ہے اور خود کشی کی وجوہات اور دوسرے پہلوں کا جاےزہ لے رہی ہے.
قبل ازیں یکم اکتوبر کو بونی کے نزدیک جونالی کوچ گاوں میں ایک جواں سال لڑکی نے دریائے چترال میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی تھیں۔
بونی تھانہ کے ایس- ایچ- او، ظہورالدین کے مطابق رشیدہ نے دریائے چترال میں چھلانگ لگاکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ اس کی لاش دریا سے برآمد کرکے بونی ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد سپرد خاک کیا گیا۔
متوفی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے دو مرتبہ ماسٹرز کی ڈگری لی تھیں مگر کسی ذہنی بیماری میںمبتلا تھی۔
پچھلے مہنے 15 ستمبر کو آیون نامی گاوں میں آٹھویں جماعت کی طالبہ نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی تھی۔
آیون تھانہ کے ایس ایچ او سب انسپکٹر صاحب الرحمن کے مطابق نرگس جو اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی نے معمولی تکرار پر گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کرلی۔
پولیس کے مطابق نرگس نے اپنے بھائی کے ساتھ موبائل فون پر تکرار کیا جو کہ بھائی نے اسے موبائل فون نہیں دیا اور والدہ نے بھی اسے ڈانٹا تھا کہ تم لڑکی ہو موبائل فون کی تمھیں اتنی ضرورت نہیں ہے۔ جب اس کی ماں اپنے کسی رشتہ دار کے گئی تو نرگس نے موقع پاکر گلے میں پھندا ڈالا اور خود کشی کرلی۔ان کی لاش ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں پوسٹ مارٹم کے بعد سپرد خاک کیا گئیا۔
پولیس کے مطابق لڑکی کے والد محنت مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب گیا ہوا ہے۔
مقامی لوغوں کے مطابق والدین کا بے جا لاڈ پیار اس حادثے کا سبب بنا.- لڑکی والدہ کی معمولی بات برداشت نہ کرسکی اور اسنے خود کشی کرلی۔
گزشتہ مہنے کی 18 تاریخ کو ایک اور جواں سال لڑکی کی اچانک موت یا خودکشی پولیس کیلئے معمہ بنی ہوئی ہے ۔
پولیس کے مطابق فرحین جو مزید خیل ضلع کوہاٹ کی رہنے والی اور حال میں کورو آیون میں مقیم ہیں، کی بیٹی کی اچانک موت ایک معمہ ببنی ہوتے ہے. جبکہ اس کی والدہ اس قاقعہ کو طبعی موت قرا ر دے رہی ہے- مگر پولیس نے مزید تفتیش کیلئے اس کی پوسٹ مارٹم پر زو ر دیا۔
اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ فرحین نے کپڑے استری کی اور صحن میں آنے کے بعد بے ہوش ہوگئی۔جسے فوری طور پر ہسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی مگر اس دوران اس کی موت واقع ہوئی۔پندرہ سالہ فرحین کی موت پر علاقے کے لوگ حیران و پریشان ہیں۔
تاہم پولیس ذرائع نے بتایا کہ فرحین کے گلے اور چہرے پر زخم کے نشانات تھے مگر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ نشانات کسی تشدد کے وجہ سے ہیں یا کوئی اور وجہ۔
فرحین کے والد بھی محنت مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب میں ہے۔ آیون پولیس اس سلسلے میں مزید تفتیش کررہی ہے۔
چترال کے خواتین خاص طور پرجواں سال لڑکیوں میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے رحجان سے لوگوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے مگر حکومتی سطح پر اس کی وجوہات جاننے اور اس کی روک تھام کے لئے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشیش دیکھنے میں نہیں آرہی ہے.
تاہم پچھلے سال ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت نے معروف ماہر دماغی امراض ڈاکٹر خالد مفتی کو فری میڈیکل کیمپ کیلئے چترال بلایا گیا تھا جنہو ں نے ٹاؤن ہال چترال میں صرف ایک دن مریضوں کا معائنہ کیا مگر زیادہ تر لوگوں کو اس کی آمد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوئی- اور دور دراز کے علاقوں کے لوگوں کو ان سے مشورہ اور علاج سے محروم رہ گئے۔
واضح رہے کہ چترال کے کسی بھی ہسپتال میں ابھی تک کوئی نفسیاتی اور دماغی امراض کا کوئی ماہر اور ڈاکٹر نہیں ہے اور نہ ہی ایسے مایوس خواتین کیلئے کوئی پناہ گاہ موجود ہے جہاں وہ پناہ لے کر خودکشی سے بچ سکے۔خواتین میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی رحجان پر تفصیل سے تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ اس کی روک تھام ہوسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے